!کچھ بھی ہوسکتا ہے
پچھلے ہفتے میں کلفٹن کے ایک مصروف شاپنگ مال پر سگریٹ کا پیکٹ خریدنے ایک سگریٹ شاپ پر رکا- جب میں اپنی کار کی طرف مڑا جو محض چند میٹرکے فاصلے پر ہی پارک تھی، میں نے اپنے سامنے دو نوجوان لڑکوں کو ایک بالکل نئی کار کے سائیڈ ویو مرر نکالتے ہوۓ دیکھا-
کم از کم بارہ افراد نے وہ تمام کارروائی دیکھی ہوگی کہ کس طرح ان لڑکوں نے شیشے توڑے اور انھیں پلاسٹک بیگ میں ڈال کر آرام سے چلتے بنے، جیسے اس سے کسی کو مطلب ہی نہ ہو- اور جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے ان سب نے بھی اس بات کو یقینی بنایا. یقیناً یہ ہمارا مسئلہ نہیں تھا-
یہ مانا جاتا ہے کہ کراچی والے پچھلے دس سالوں سے جرم کی کسی نہ کسی شکل کے شکار ضرور رہے ہیں- اور مزے کی بات یہ کہ جو اس بات کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں انکا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ کراچی میں کسی جرم کا نشانہ نہیں بنے ہیں ممکن ہے وہی لوگ ان جرائم میں ملوث ہوں-
اس سلسلے میں معاملات جیسے وبا کی شکل اختیار کر گۓ ہیں- اغوا براۓ تاوان، ٹارگٹ کلنگ، کار چھیننا، لوٹ مار، ڈکیتی، بینک ڈکیتی اور بھتہ خوری وغیرہ-
کراچی ایک ایسا زرخیز کھیت بن گیا ہے جہاں فوری کالا دھن کمانے کے خواہش مند شاذ و نادر ہی ہچکچاتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر، جرم کے بعد بچ کر نکل بھی جاتے ہیں-
اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہےکہ کس طرح شہر کی بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے عسکری ونگز کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں- جو وقت گزرنے ساتھ ساتھ بھتہ خوروں، اغوا براۓ تاوان، ڈکیتوں اور لٹیروں کے منظم گروہوں میں تبدیل ہو گۓ ہیں-
ان غیر مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز کے علاوہ کچھ اور کھلاڑی ہیں جو اس شہر کی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھونے چلے آۓ ہیں- شیطانی فرقہ وارانہ اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں نے بھی یہاں اپنا کاروبار جما لیا ہے-
اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے غیر مذہبی مقابل جماعتوں کی دیکھا دیکھی مجرمانہ کارروائیاں شروع کر دی ہیں- جن میں بینک لوٹنا، راہگیروں کو لوٹنا، اغوا براۓ تاوان اور وقت پڑنے پر کراۓ کے قاتلوں کی مدد سے مخالفوں کو راستے سے ہٹانا شامل ہے-
اور صرف یہی نہیں، معاملات کو اور بگاڑنے کے لئے (اور پیچیدہ بنانے کے لئے) حال ہی میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ بعض سیکورٹی ایجنسیان بھی مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں، جن کا کام ان مجرموں کا پکڑنا ہوتا ہے-
پاکستان کے اقتصادی حب، ملک کے سب سے بڑے، ملٹی کلچرل اور سب سے بڑے رہائشی شہر کو کس طرح جرائم کی اس وبائی لہر سے بچایا جاۓ اس پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے-
ان تفصیلات میں نہیں جاتے، یہ وفاقی اور صوبائی حکومت کا کام ہے اور اس پر غور کرنے کے لئے ماہرین موجود ہیں- لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کراچی کو ان بیماریوں سے چھٹکارا دلانا ممکن ہے-
صرف بنا کسی ہچکچاہٹ اور رکاوٹ کے قانون کے نفاز کی ضرورت ہے-
میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں؛
کہا جاتا ہے کہ ایک قوم کی ذہنی نشونما کا اندازہ اس کی ٹریفک کی نوعیت دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے- اور کراچی کی سڑکوں پر موجود ٹریفک شاید ملک کا سب سے مخبوط الحواس ٹریفک ہوگا-
بالکل نارمل مرد اور عورتیں اپنی موٹر بائیکوں، کاروں، بسوں، ٹرکوں اور رکشوں پر اتنی تیز رفتاری میں ہوتے ہیں جیسے ان کے پیچھے موت کا فرشتہ لگا ہو، انہیں ٹریفک قوانین کا زرہ برابر بھی لحاظ نہیں ہوتا-
ڈرائیونگ کرنے والوں کے علاوہ، مرد اور عورتیں اور کبھی کبھی بچوں کے ہمراہ، پیدل چلنے والوں کے اوور ہیڈ برج کی بجاۓ سڑک پر چلنا پسند کرتے ہیں- ایسا لگتا ہے وہ ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کی بجاۓ، سڑکوں پر لگی باڑ سے گزر کر مین روڈ پر گرنے کو ترجیح دیتے ہیں- اور ان بدنصیبوں کو دیکھ کر بعض منچلے موٹر بائیک سوار، کسی 'نامعلوم وجہ' کی بنا پر اپنی بائیک کی رفتار اور تیز کر دیتے ہیں-
بائیک والے تو ان سے بھی بدتر ہیں- ایسا لگتا ہے کہ جس لمحے وہ بائیک پر سوار ہوتے ہیں ان پر کوئی شیطان سوار ہوجاتا ہے- نوجوانوں کو بھول جائیں، یہاں تو بیوی بچوں والے بھی موٹر بائیک کچھ اس طرح دوڑاتے ہیں جیسے کل کبھی نہیں آۓ گا، اور کبھی کبھار ایسا ہی ہوتا ہے-
وہ مسلسل تیز رفتاری کے ساتھ آپ کی کار کی بائیں جانب سے نکلنے کی کوشش کریں گے، آپ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ اگر انہیں موقع ملے تو شاید آپ کی کار کے نیچے سے ہی گزر جائیں، کسی فلمی سین کی طرح-
جرائم مافیا کی طرح کراچی کے ڈرائیور اور سواریاں بھی ہر طرح کے پاگل پن کے باوجود قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں- لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں، ایک بار اس پاگل پن پر حقیقت میں قابو پا لیا گیا تھا-
سنہ انیس سو اٹھانوے کی بات ہے مجھے ٹریفک سگنل پر ایک اہلکار نے روک لیا، مجھے تعجب ہوا کیوں کہ میں لال بتی پر بالکل رک گیا تھا- جب میں نے وجہ پوچھی تو کانسٹیبل نے بتایا کہ میری کار اس سفید حد سے آگے نکل گئی تھی جس سے پہلے گاڑیوں کو سگنل پر رک جانا ہوتا ہے-
مجھے یہ بات بالکل احمقانہ لگی- کراچی میں ایک ٹریفک پولیس اہلکار ایسی چھوٹی سی ٹریفک کی خلاف ورزی کے لئے مجھے جرمانہ کر رہا تھا؟ میں نے احتجاج کیا، حد یہ کہ اپنا طاقتور پریس کارڈ بھی دکھایا لیکن وہ نہ مانا-
بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ کراچی ٹریفک پولیس نے، ٹریفک کی معمولی سے معمولی خلاف ورزی کرنے والوں سے بھی کسی قسم کی رعایت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-
اور پھر یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ موٹر بائیک اور موٹر سوار جو ٹریفک سگنل پر رک تو جاتے لیکن پھر بھی ہلتے جلتے سفید حد پار کر جاتے تھے انہوں نے بھی یہ کرنا بند کر دیا-
امیر اور غریب، با اثر اور عام آدمی سب پر یکساں جرمانہ کر کے، ٹریفک پولیس نے کم از کم ٹریفک قوانین کے اس ایک پہلو کا احترم تو ممکن بنایا-
اور سالوں تک، ٹریفک پولیس کے سفید حد پار کرجانے پر جرمانہ ختم کر دینے کے باوجود، موٹر بائیک اور موٹر سواروں کی ہمّت نہیں ہوتی تھی کے یہ لائن پار کر سکیں-
ظاہر ہے آج پھر سے تمام چیزیں پرانی ڈگر پر آگئی ہیں- لیکن اس بد نظم شہر کی ٹریفک پولیس کا یہ چھوٹا سا تجربہ بہت کچھ سکھاتا ہے- یعنی، اگر بنا کسی ہچکچاہٹ اور رعایت کے قانون کا نفاز کیا جاۓ جس کا مظاہرہ سنہ انیس سو اٹھانوے میں ٹریفک پولیس نے کیا تھا، تو شہر کے طول و عرض میں پھیلے جرائم میں بھی قانون کا احترام پیدا کیا جا سکتا ہے-
ترجمہ : ناہید اسرار