یورپ جانے والے پاکستانی تارکین وطن درپیش خطرات سے بخوبی واقف تھے
غیرقانونی سمندری راستے سے یورپ جانے کی کوشش میں مراکش کے ساحل کے قریب کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والے تحصیل کھاریاں کے نواحی گاؤں کے رہائشی نوجوان سفیان اور عاطف اپنی زندگیوں کو درپیش خطرات سے بخوبی واقف تھے، ان کے خاندان نے اپنی زمینیں فروخت کرکے فی کس 40 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تحصیل کھاریاں میں جی ٹی روڈ سے تقریباً 30 منٹ کی مسافت پر ڈھولا گاؤں واقع ہے، جب کوئی پکی سڑک سے گاؤں کو جانے والے کچے راستے پر آتا ہے تو کثیر منزلہ حویلیاں نظر آتی ہیں، جس سے علاقے کی خوشحالی کا احساس ہوتا ہے۔
جیسے ہی ہم گاؤں میں داخل ہوتے ہیں ہم ایک راہ گیر کو روک کر سفیان گورسی اور عاطف شہزاد کے گھر کا راستہ پوچھتے ہیں، جو جنوری میں مراکش کے ساحل کے قریب تارکین وطن کی کشتی کے حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
اس نوجوان نے اپنی شناخت اطالوی شہر بولونا کے رہائشی کے طور پر کرائی، اس گاؤں کے زیادہ تر خاندانوں میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد خلیجی ممالک یا یورپ میں آباد ہیں۔
یہ دونوں ان 43 بدقسمت پاکستانیوں میں شامل تھے جو الڈوراڈو جانے کی کوشش میں ہلاک ہو گئے تھے، متاثرین میں گجرات اور منڈی بہاالدین سے تعلق رکھنے والے 7 افراد شامل ہیں جبکہ 22 افراد زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔
سفیان اور عاطف چچا زاد بھائی تھے اور 2004 میں والدین کی وفات کے بعد سفیان کی پرورش اس کے چچا نےکی تھی، دونوں شادی شدہ بھی تھے، سفیان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں، سب سے بڑا بیٹا صرف 5 سال کا ہے، جب ہم پہنچے تو وہ گھر کے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
عاطف کے والد نے ہمیں بتایا کہ وہ 30 سال سے دبئی میں مقیم ہیں جبکہ عاطف کا چھوٹا بھائی اب بھی وہیں کام کرتا ہے، بدقسمت نوجوان نے خود تقریباً ایک دہائی امارات میں کام کرتے ہوئے گزاری تھی۔
ان کے ماموں چوہدری احسن گورسی کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہے تو اسے کام کے لیے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے، والدین اپنے نوجوانوں کو بری صحبت سے بچانے کے لیے بیرون ملک بھیج دیتے ہیں‘۔
چوہدری احسن گورسی بھی اپنے آبائی گاؤں لوٹنے سے قبل 22 سال تک دبئی میں ملازمت کرتے رہے اب وہ یہاں مویشیوں اور ڈیری کا کاروبار کرتے ہیں، لیکن ان کے بڑے بھائی اب بھی دبئی میں کام کرتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ اپنی نوجوانی میں جعلی دستاویزات پر بیرون ملک جاتے ہیں تاکہ وہ غیر ملکی سرزمین پر کام کرنے کے اہل بن سکیں، عاطف کی عمر میں بھی اسی طرح چار سال کا اضافہ کیا گیا تاکہ وہ بیرون ملک ملازمت حاصل کرسکے۔
جھوٹی شان و شوکت کے ساتھ رہنا
اگرچہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یورپ کے سفر کے دوران ان پرعزم نوجوانوں کو کیا مشکلات اور خطرات درپیش ہیں، لیکن جب مغرب کے سفر کے لیے مالی اعانت کی بات آتی ہے تو شاید ہی کوئی ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔
چوہدری احسن گورسی کے مطابق یورپ کا سفر کرنے والے ہر شخص کو اخراجات برداشت کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ زمین بیچنی پڑتی ہے، ایک شخص کے سفر کے لیے تقریباً 40 لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں, زمین فروخت کرنے کے علاوہ اس کا انتظام کرنا ناممکن ہے، دونوں نوجوانوں نے بھی یہی کیا۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے گوجرانوالہ عبدالقادر قمر کا کہنا ہے کہ ’گجرات اور منڈی بہاالدین کے علاقوں میں تقریباً 30 فیصد آبادی تارکین وطن کے خاندانوں پر مشتمل ہے، جو لوگ یہاں رہ رہے ہیں ان کے قریبی رشتہ دار بیرون ملک آباد ہیں، اگر خاندان کا کوئی فرد وہاں پہنچتا ہے تو وہ دوسروں کو اپنے پیچھے کھینچ لیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ غیرقانونی راستہ اختیار کرنے والوں کی کئی کامیابی کہانیاں بھی ہیں جو بہت سے تارکین وطن کے لیے ایک بڑا لالچ ہے۔
قمر کہتے ہیں کہ ’وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ارد گرد بڑی بڑی حویلیاں ایسے خاندان تعمیر کر رہے ہیں جن کے ارکان یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اور پھر وہ بھی اسی راستے پر چلنا چاہتے ہیں‘۔
عاطف اور سفیان دونوں 4 اگست، 2024 کو گھر سے نکلے اور جنوری تک موریطانیہ میں رہ کر اسپین جانے کے لیے اپنی کشتی کی سواری کا انتظار کرتے رہے۔
’وہ 2 جنوری کو موریطانیہ سے یورپ کے لیے روانہ ہوئے،کشتی میں سوار ہوتے وقت ہمیں دعا کے لیے، ان کے دوست ایک ہفتہ قبل یورپ پہنچے تھے اور ہمیں توقع تھی کہ وہ 4 دن میں اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں خبر ملی کہ تارکین وطن 6 جنوری کو اسپین پہنچے ہیں لیکن ویب سائٹ صرف پہنچنے والے افراد کی تعداد بتاتی ہے، ان کی قومیت کی تفصیلات نہیں دیتی‘۔
اہل خانہ کو توقع تھی کہ وہ 7 یا 8 جنوری کو رابطہ قائم کریں گے، لیکن جب ایسا نہیں ہوا، تو وہ فکرمند ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے دوسرے جزیرے پر اپنے رابطے کا استعمال کیا اور اس سے تفصیلات حاصل کرنے کو کہا، وہ 10 تاریخ کو وہاں پہنچا، 13 تاریخ کو ہمیں خبر ملی کہ جزائر کینری کے قریب ایک کشتی میں ایک حادثہ پیش آیا ہے جہاں لوگ سمندر میں گر گئے ہیں، لیکن انہیں بچا لیا گیا ہے، تفصیلات بہت کم تھیں اور ہم نے سوچا کہ انہیں مراکشی حکام نے گرفتار کیا ہے اور انہیں ایک سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے گا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے ایجنٹ نے ہمیں بتایا کہ مراکشی حکام نے انہیں گرفتار کر لیا ہے اور وہ ذاتی طور پر مدد کے لیے وہاں جا رہا ہے‘۔
عاطف اور سفیان کا ایجنٹ فہد گجر تھا جو پڑوس کے گاؤں جورا کا رہنے والا تھا، اس واقعے کے بعد اسے اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے جبکہ اس کی والدہ کو بھی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
15 جنوری کی شام کو ایجنٹ نے گھر والوں کو بتایا کہ عاطف اور سفیان کی موت ہو گئی ہے، اگلے دن انہیں خبر ملی کہ سفیان کی لاش مل گئی ہے لیکن عاطف کی لاش نہیں ملی۔
اسمگلرز کے ساتھ کشمکش
چوہدری احسن گورسی کے مطابق، اسی گاؤں کے ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے انہیں بتایا کہ 3 دن تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، لیکن جب وہ اسپین کے قریب پہنچے تو اس میں سوار افریقی اسمگلر کشتی کو مراکش کی طرف موڑنا چاہتے تھے۔
جہاز پر تقریباً 100 افراد سوار تھے جبکہ ان میں سے 25 افریقی تھے، مراکش کے ساحل سے دور ہوتے ہی انہوں نے کشتی کو سمندر میں روک دیا اور جہاز میں سوار افراد سے لائف جیکٹیں لینا شروع کر دیں، انہوں نے خشک میوہ جات اور پانی بھی چھین لیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہ رات کو اٹھے اور صحت مند تارکین وطن کو باندھنا اور ان پر تشدد کرنا شروع کر دیا، جب وہ عاطف کو مارنے آئے تو سفیان نے مداخلت کی اور انہوں نے اسے زور سے مارا جس سے اس کی آنکھ کو گہری چوٹ لگی، یہ واقعہ 10 جنوری کو پیش آیا، انہوں نے عاطف کو قتل کیا اور اس کی لاش کو سمندر میں پھینک دیا جبکہ سفیان تین یا چار دن تک زندہ رہا‘۔
احسن گورسی نے کہا کہ انہیں پتا چلا ہے کہ ایجنٹوں کے درمیان کچھ مالی مسائل ہیں، جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔
ایک اور وجہ ڈھولا کے قریبی گاؤں کریاں والا کے رہائشی ظہیر الدین بابر کی موت بتائی گئی، کشتی میں دل کا دورہ پڑنے سے اس کی موت ہو گئی اور اسمگلرز اس کی لاش کو پانی میں پھینکنا چاہتے تھے لیکن جہاز میں سوار پاکستانیوں نے اس پر اعتراض کیا جس سے اسمگلر ناراض ہو گئے۔
احسن گورسی نے دعویٰ کیا کہ سفیان امدادی ٹیموں کے پہنچنے تک زندہ تھا لیکن پھر جانبر نہیں ہوسکا۔
بحیرہ روم کو غیر قانونی طور پر عبور کرنے کے خطرات سب کو معلوم ہیں، پھر تارکین وطن یہ راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے عبدالقادر قمر کے مطابق راستے کے حوالے سے ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے، اس سے قبل لوگ ایران اور ترکیہ سے گزرنے والے راستوں کو ترجیح دیتے تھے، یہ اب ترک کر دیئے گئے ہیں یا شاذ و نادر ہی استعمال ہوتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ ایران اور پاکستان کی سرحد پر مزید پابندیاں اور باڑ لگانا ہے، سرحد پار کرنے میں مزید خطرات شامل ہیں۔
زمین اور سمندر کے راستے سرحد پار کرنے کے لئے مختلف اخراجات ہیں، زمینی سفر پر تقریباً 20 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ افریقہ سے گزرنے والے سمندری راستے پر تقریباً 40 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں سرحد پار کرنے کے رجحان میں کمی آئی ہے، غیر قانونی تارکین وطن ہوائی سفر کی طرف منتقل ہو گئے ہیں، مثال کے طور پر لوگ عمرہ کی ادائیگی کے بہانے سعودی عرب جاتے ہیں اور پھر وہاں سے یورپ جاتے ہیں۔
ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے درجنوں مشتبہ انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا ہے جن میں سے 17 انٹرپول کو مطلوب اور 163 اشتہاری مجرم ہیں۔
ایجنسی نے اسپین، اٹلی، یونان اور ایران میں بھی رابطہ دفاتر قائم کیے ہیں، جہاں گریڈ 18 اور 19 کے افسران کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کیا جاسکے۔
لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود لوگوں کو ان خطرناک اور غیر قانونی راستوں پر اپنی قسمت آزمانے پر مجبور کرنے والے عوامل اب بھی برقرار ہیں، جب تک دنیا بھر میں مغرب میں بہتر زندگی کا خواب دیکھنے والوں کا استحصال کرنے والے بین الاقوامی نیٹ ورکس کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک مزید سانحات رونما ہوسکتے ہیں۔