پاکستان کا عالمی کرکٹ کی میزبانی کا خواب 29 سال بعد حقیقت بن گیا، چیمپئنز ٹرافی کا میلہ سج گیا
پاکستان کا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) کے ٹورنامنٹ کی میزبانی کا خواب 29 سال کے طویل انتظار کے بعد آج پورا ہونے جارہا ہے، نیشنل بینک کرکٹ اسٹیڈیم کراچی میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ مدمقابل آئیں گے، 1996 کے بعد پہلی بار آئی سی سی ٹورنامنٹ کے انعقاد کی خوشی واضح ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل بینک کرکٹ اسٹیڈیم کو جانے والے راستوں کو چیمپیئنز ٹرافی کی برانڈنگ سے سجایا گیا ہے جبکہ اسٹیڈیم کو سبز اور نیلے رنگوں سے سجایا گیا ہے اور توقع ہے کہ صدر آصف علی زرداری افتتاحی میچ میں شرکت کریں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سربراہ محسن نقوی کے مطابق پاکستان چیمپئنز ٹرافی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، لیکن کچھ مداحوں کو اب بھی یقین نہیں آرہا کہ پاکستان میں اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی کا خواب پورا ہونے جارہا ہے۔ ایک مداح محمد عبداللہ نے ڈان کو بتایا کہ ’اگر 2015 میں کسی نے مجھ سے کہا ہوتا کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا پاکستان آئیں گے تو میں یقینی طور پر اس پر ہنستا اور اسے گمراہ کن سمجھتا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی دینے کا اعلان کیا گیا تو میں صرف یہ توقع کر رہا تھا کہ اسے منسوخ کر دیا جائے گا، لہٰذا یہ پاکستان کے لیے پہلے ہی ایک بہت بڑی فتح ہے‘۔
پاکستان نے 1996 کے بعد پہلی بار آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کے لئے ایک طویل سفر طے کیا ہے،2009 میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر حملے کے بعد ملک کی محفوظ کرکٹ وینیو کی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔
اس سال پاکستان نے 2009 کی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کے حقوق کھو دیے تھے اور 2011 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی سے بھی محروم ہوگیا تھا، اس کے بعد خالی اور خاموش اسٹیڈیموں کا دور شروع ہوا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی، جن کے دور میں 2009 کے بعد زمبابوے نے پہلی غیر ملکی ٹیم کے طور پر پاکستان کا دورہ کیا تھا، نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ نے ٹیموں کو پاکستان کا دورہ کرنے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نجم سیٹھی نے ڈان کو بتایا کہ ’ٹیموں کو دورے کے لیے قائل کرنا کافی مشکل تھا لیکن پی ایس ایل کی آمد نے ثابت کر دیا کہ سیکیورٹی کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ کیلئے اعزاز
پاکستان میں 16 سال بعد بین الاقوامی کرکٹ کی بتدریج واپسی ہوئی ہے، حال ہی میں چیمپیئنز ٹرافی کے لیے ملک کے اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش اور اپ گریڈنگ کی گئی ہے۔
محسن نقوی کی قیادت میں پی سی بی کی جانب سے تزئین و آرائش کا کام 100 دن میں مکمل کیا گیا، لاہور کے قذافی اسٹیڈیم اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں خود کو عظیم میزبان ثابت کیا ہے اور ہم چیمپئنز ٹرافی میں بھی ایسا ہی کریں گے، انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ دنیا کو اپنی ایونٹ آرگنائزنگ صلاحیتیں دکھائے۔
لیکن قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان کے ایک بھی گروپ میچ کی میزبانی نہیں کی جائے گی، پی سی بی نے میزبان ٹیم کے میچز ابتدائی طور پر لاہور میں طے کیے تھے لیکن بھارت کی جانب سے ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان آمد سے انکار کے بعد انہیں دبئی منتقل کرنا پڑا۔
یہ فیصلہ ’ہائبرڈ‘ ماڈل کے تحت کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان 2025 ویمنز ورلڈ کپ اور 2026 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے میچز میزبان ملک بھارت سے باہر کھیلے گا۔
پی سی بی کے سابق چیئرمین احسان مانی جو 2003 سے 2006 تک آئی سی سی کے صدر بھی رہ چکے ہیں، کا خیال ہے کہ ٹورنامنٹ کو دو ممالک میں تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’بھارت کے انکار کی وجہ سے پاکستان میں میچوں کی تعداد میں کمی افسوسناک ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی سی کو اس معاملے سے بہتر طریقے سے نمٹنا چاہیے تھا اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ ٹورنامنٹ مکمل طور پر پاکستان میں منعقد ہو،میرے لیے یہ آئی سی سی کی ناکامی ہے۔
تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ چیمپئنز ٹرافی پاکستان کرکٹ کے لیے دیگر فوائد لائے گی۔
احسان مانی کا کہنا تھا کہ 1996 کے بعد پہلی بار آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کرنا پاکستان کے لیے بہت بڑی بات ہے، اس کے ذریعے پاکستان کو دنیا کے سامنے کھیل اور کاروبار دونوں کے لیے اپنی کشادگی ظاہر کرنے میں مدد ملنی چاہیے۔
سرحد پار سے رد عمل
چیمپئنز ٹرافی کی پاکستان آمد پر بھارتی میڈیا میں بھی ردعمل سامنے آیا تھا جس میں زیادہ تر پاکستان کی جانب سے ایونٹ کی تیاریوں کے فقدان پر تنقیدی خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔
یہاں تک کہ بھارتی ٹیم کی جرسی پر چھاپے گئے ٹورنامنٹ کے لوگو پر پاکستان کا نام بھی سرحد پار غم و غصے کا باعث بنا تھا۔
بھارت میں معاندانہ بیانیے کے باوجود نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی بھارت اور پاکستان دوطرفہ کرکٹ تعلقات دوبارہ شروع کریں گے، ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان سفارتی تعلقات استوار کیے جائیں۔
اس کے لیے پاکستان کو اپنے روایتی حریف کے خلاف ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ جیتنا ہوگا، محمد رضوان کی قیادت میں نیوزی لینڈ کے خلاف حالیہ شکست نے پاکستان کے امکانات پر سوالات کھڑے کر دیے تھے۔
فیورٹ بھارت اور نیوزی لینڈ کے مقابلے میں پاکستان کے پاس اسپیشلسٹ اسپنرز اور میچ وننگ بلے بازوں کی کمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بحیثیت ادارہ پی سی بی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کرکٹ کی سطح پر اثر انداز ہونے کے لیے پاکستان کو اپنے تمام میچز جیتنے کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ ہم ٹائٹل جیتیں گے۔
کرکٹ کے میدان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیمپئنز ٹرافی کی آمد کا جشن منائے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق سربراہ رمیز راجا نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی ہمیں عالمی کرکٹ کے جشن کا حصہ بناتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ’عالمی نقطہ نظر سے پاکستان کے لیے اس سے بہتر لمحہ نہیں ہو سکتا، اس سے قوم کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اب یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اسے تکمیل تک پہنچائیں، ہمیں پریزنٹیشن اور عمل درآمد میں مضبوط ہونے کی ضرورت ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس کا مزہ چکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی ضرورت ہے‘۔