طالبان حکومت میں بڑھتے اندرونی اختلافات، کیا افغانستان میں بغاوت ہونے والی ہے؟
نام نہاد استحکام کا پردہ اب ہٹ چکا ہے اور افغانستان بحران کی حالت میں ہے۔ معاشی صورت حال تشویش ناک ہے، خواتین گھروں تک محدود ہیں جبکہ امریکی امداد بند ہونے سے ملک میں انسانی المیے نے خطرناک صورت اختیار کی ہے۔
بہت سے لوگ جو پہلے طالبان حکومت پر اعتماد کرتے تھے، اب وہ اپنا اعتماد کھو رہے ہیں جبکہ قیادت میں اندرونی اختلافات میں بھی شدت آئی ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی تقسیم طالبان کی صفوں میں بغاوت کا باعث بن سکتی ہے۔
بڑھتے ہوئے اختلافات کی خبروں کے درمیان، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں سوشل میڈیا بحث میں اس مسئلے پر بات کی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ نقطہ نظر میں اختلافات موجود ہیں لیکن ساتھ ہی اصرار کیا کہ یہ لڑائی جھگڑے یا کھلے تصادم میں تبدیل نہیں ہوتے۔ تاہم ان کی جانب سے تردید کے باوجود مبصرین کے خیال میں طالبان قیادت میں شدید اختلافات ابھر رہے ہیں۔
طالبان کبھی بھی ایک مربوط یا متحد تنظیم نہیں رہی۔ اگرچہ اس میں پختون اراکین کی اکثریت کے باوجود یہ تنظیم لسانی، علاقائی اور قبائلی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ اندرونی چپقلش کی جھلک کلیدی پالیسی مسائل پر بھی نمایاں ہوتی ہے جیسے لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر ممالک کے ساتھ مثبت کام کیسے کیے جائیں۔
افغانستان بالخصوص ملا ہیبت اللہ کے قریبی ساتھیوں کا بیانیہ کچھ یوں ہے کہ طالبان لیڈر کے نظریات پختہ ہیں اور وہ قبائلی قدامت پرستی میں خود کو طالبان گروپ کے نظریاتی اور سیاسی محافظ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے معیشت، سماجی ہم آہنگی اور حتیٰ کہ اپنے اتحادیوں کو داؤ پر لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگرچہ امریکی امداد کے خاتمے پر طالبان حکومت کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن ملا ہیبت اللہ اور ان کے ہم خیال ساتھیوں کے لیے شاید یہ اقدام کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔ وہ افغانستان میں بین الاقوامی سماجی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو مکمل طور پر بند کرنے پر غور کررہے ہیں۔
طالبان حکومت صحت عامہ اور معاشرتی سیکٹرز کو سنبھالنے کی اہل نہیں جوکہ کافی حد تک بیرونی امداد پر منحصر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر طالبان نے گھر گھر پولیو کے قطرے پلوانے سمیت مساجد اور دیہی مراکز تک پولیو ویکسین کی فراہمی پر پابندی عائد کردی ہے۔
اگر بین الاقوامی برادری کسی متبادل پلان کے ساتھ سامنے نہیں آتی ہے یا طالبان خود اپنے طور پر معاشی بہتری اور صحت کے شعبہ کے لیے مالیات بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں لیتے ہیں تو صورت حال بدتر ہوسکتی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی وجہ سے پاکستان طالبان حکومت سے ناخوش ہے جو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو قابو میں کرنے کے لیے طالبان حکومت نے پاکستان کی حمایت میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں لیے ہیں۔
ردعمل کے طور پر طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پاکستان افغان پناہ گزینوں کو استعمال کررہا ہے جیسے کہ انہیں جڑواں شہروں اور پھر پورے ملک سے نکالنے کے لیے اقدامات ہورہے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے افغان پناہ گزینوں کی بےدخلی کے پاکستانی اقدام کی مذمت کی ہے لیکن وہ ان کی آبادکاری اور بحالی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے کیونکہ ان کے خیال میں پناہ گزینوں کی اکثریت طالبان مخالف سوچ رکھتی ہے۔
تاہم یہ بے یقینی ہے کہ آیا پاکستان کے فیصلے کی وجہ سے افغانستان، ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کرنے کے لیے مجبور ہوں گے یا نہیں۔ تاہم پناہ گزینوں کی واپسی بلاشبہ افغانستان کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہے۔
امیر طالبان مُلا اخوندزادہ نے متعدد اقدامات کے ذریعے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے جن میں ہر صوبے میں علما کونسل کا قیام قابلِ ذکر ہے۔ یہ کونسلز ان کی آنکھوں اور کانوں کی مانند کام کرتی ہے جس کے ذریعے وہ ملک بھر میں وفادار علما کی مدد سے نگرانی کرتے ہیں۔ یہ طالبان حکومت کے درمیان کسی بھی خلاف ورزیوں کی بھی نگرانی اور رپورٹ کرتی ہیں۔
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے رکن اینڈریو واٹکنز نے امیر طالبان کے ایجنڈا کے خلاف اختلافات کا مشاہدہ کیا ہے۔ تشریح پرانی ہوچکی لیکن یہ اب بھی درست ہے۔ طالبان اراکین کی بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ امیر اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں مگر ان سے اختلاف رکھنے والے حلقوں میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔ ان کے درمیان کوئی متفقہ نقطہ نظر نہیں یا اپنے اہداف کے لیے مل کر کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے اجتماعی کارکردگی مشکل ہوجاتی ہے۔
دوسری جانب امیر طالبان، مستقل مزاجی یا استحکام کا پیغام دیتے ہیں۔ امیر طالبان جو کم ہی منظرعام پر آتے ہیں، اپنی ایک تقریر میں انہوں نے زور دیا کہ جہاد یا جدوجہد بیرونی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ وہ اب معاشرے کو پاک کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیونکہ مخالفین اب بھی موجود ہیں۔
ان کی اپیل طالبان کی صفوں میں کلیدی اثر و رسوخ رکھتی ہے جو گروپ میں اختلافات رکھنے والوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ بیجنگ، ماسکو، ریاض، نئی امریکی انتظامیہ اور دیگر عالمی قوتوں کے پاس شاید افغانستان میں استحکام یا معاشی بہتری کے منصوبے ہیں تاکہ نئے خطرات سر نہ اٹھا سکیں۔ تاہم دنیا کے مؤثر تعاون کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ طالبان درست ردعمل دیں کہ وہ کس طرح دنیا سے مؤثر انداز میں بات چیت کرتے ہیں۔
ممکنہ بغاوت کی خبروں سے شاید عالمی تعاون میں تاخیر ہوجائے۔ اگر مخالفین کا حلقہ مضبوط ہوجاتا ہے تو افغانستان کے لیے دنیا کے نظریے میں تبدیلی آسکتی ہے جس سے ملک میں افراتفری پیدا ہوسکتی ہے۔
اب تک طالبان کے لیے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کے مخالفین کمزور ہیں۔ افغانستان کا قومی مزاحمتی محاذ جوکہ سابق شمالی اتحادیوں پر مشتمل ہے، کے پاس ایسی قیادت، سیاسی نظریات یا منصوبے نہیں ہیں جو مقامی لوگوں یا افغانستان میں طالبان کے خلاف تحریک چلانے کی کوشش کرنے والے بین الاقوامی گروپس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان رجیم میں بھی کچھ حلقے طالبان قیادت ملا ہیبت اللہ کو چیلنج کرسکتے ہیں اور ان کے خلاف بغاوت کرسکتے ہیں۔ تو کیا حلقے انہیں برطرف کرکے ایک مستحکم حکومت بنا سکتے ہیں؟ تقسیم سے طالبان قبائلی اور لسانی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گے جبکہ 1990ء کی دہائی کے وسط میں بھی ہم نے کچھ ایسی ہی صورت حال دیکھی تھی۔
یہ افغانستان، پاکستان اور دیگر ہمسایوں کے لیے ایک خوفناک منظرنامہ ہے جبکہ یہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔
اقتدار کی پرامن منتقلی سے افغان طالبان اپنی مدد آپ کرسکتے ہیں جس سے طالبان پر پالیسیز تبدیل کرنے کا دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ تاہم افغانستان میں طالبان مخالف گروہوں، بیرونِ ملک مقیم افغان شہریوں اور دانشوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اکثر سیاسی، اخلاقی اور فوجی حمایت کے لیے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں۔ گزشتہ 55 سال کے تنازعات اور بیرونی مداخلت کی وجہ سے ان گروہوں نے اپنے طور پر ایک مقامی، پرامن تحریک کے قیام کے لیے جدوجہد کی ہے۔
اس اندرونی کمزوری نے انہیں سیاسی طور پر کمزور بنایا ہے جس کی بنیاد پر وہ بیرونی ذرائع سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ پاکستان میں مقامی حقوق کی تحریکوں کو آئیڈیل سمجھتے ہیں جیسے کہ پشتون تحفظ موومنٹ سے خود کو منسلک کرتے ہیں جبکہ وہ منظور پشتین اور علی وزیر جیسی شخصیات سے متاثر نظر آتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔