• KHI: Asr 4:53pm Maghrib 6:31pm
  • LHR: Asr 4:17pm Maghrib 5:56pm
  • ISB: Asr 4:19pm Maghrib 5:59pm
  • KHI: Asr 4:53pm Maghrib 6:31pm
  • LHR: Asr 4:17pm Maghrib 5:56pm
  • ISB: Asr 4:19pm Maghrib 5:59pm
ہیڈر: اے ایف پی

’یا تو وِن ہے یا لرن ہے‘، مگر قومی ٹیم گزشتہ شکستوں سے سیکھتی کیوں نہیں؟

کل کوہلی کی اننگز دیکھ کر پاکستانی شائقین حسد و رشک میں مبتلا رہے کہ وہ آخر کب کسی پاکستانی بلے باز کو کسی بڑے میچ میں ایسی ہی شاندار اننگز کھیلتا دیکھ پائیں گے۔
شائع 24 فروری 2025 12:58pm

بہت عرصہ بعد ایک ایسا آئی سی سی ٹورنامنٹ ہوا ہے کہ جس کی شروعات سے قبل ہی پاکستانی کرکٹ شائقین کو ٹیم سے کچھ خاص امیدیں وابستہ نہ تھیں۔ ایک تو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی نہایت خراب کارکردگی، ناقص اسکواڈ سلیکشن اور پھر سہ ملکی ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ہی کچھ ایسی تھی کہ کسی کو پاکستانی ٹیم سے اچھی امید نہیں تھی۔

جہاں باقی ٹیمیں اس ٹورنامنٹ میں 3 سے 4 اوپنرز اور اسپنرز کے ساتھ شرکت کر رہی ہیں وہیں پاکستانی سلیکشن کمیٹی نے صرف ایک اسپیشلسٹ اوپنر اور ایک ہی اسپیشلسٹ اسپنر کو اسکواڈ میں شامل کرنا مناسب سمجھا۔ دوسری جانب فہیم اشرف اور خوشدل شاہ جو آخری ون ڈے بالترتیب ڈیڑھ اور ڈھائی سال قبل کھیلے تھے، کو بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کی کارکردگی کی بنیاد پر اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا۔

فہیم اشرف کے انتخاب کو کچھ لوگ سیاسی بنیادوں پر کی گئی سلیکشن بھی قرار دے رہے ہیں وہیں کچھ لوگ خوشدل شاہ کے انتخاب کو کپتان محمد رضوان کا مطالبہ قرار دے رہے ہیں جو ملتان سلطان میں رضوان کی کپتانی میں کھیلتے ہیں۔ فیصل اکرم، سفیان مقیم، عامر جمال، عبداللہ شفیق، عرفان نیازی جیسے کھلاڑی جنہیں آسٹریلیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے دوروں پر ساتھ لے جایا گیا، چیمپیئنز ٹرافی کے لیے بالکل نظر انداز کردیے گئے۔

افتتاحی میچ کی دوسری ہی گیند پر اسکواڈ میں شامل واحد اوپنر فخر زمان بھی ان فٹ ہوکر پویلین لوٹ گئے تو رہی سہی امیدیں بھی معدوم ہونے لگیں۔ فخر زمان ان فٹ ہوئے تو ان کے متبادل کے طور پر امام الحق کو ٹیم میں شامل کردیا گیا جنہیں ٹیسٹ اسکواڈ سے بھی اسی وجہ سے نکالا گیا تھا کہ ٹیم انتظامیہ کو امام الحق کی بیٹنگ میں ’انٹینٹ‘ یا عزم کی کمی نظر آتی تھی اور وہ ون ڈے ورلڈ کپ کے بعد سے ون ڈے منصوبوں میں شامل ہی نہ تھے۔

آئی سی سی ٹورنامنٹس میں صرف چیمپیئنز ٹرافی ہی وہ واحد ٹورنامنٹ ہے جہاں بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بہتر تھی۔ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں اس میچ سے قبل ہونے والے 5 میچز میں سے 3 پاکستان جبکہ دو بھارتی ٹیم نے جیتے تھے۔ یہ اعداد و شمار خوش کن ضرور تھے لیکن پہلے ہی میچ میں ناقص کارکردگی کے بعد ہی شائقین کرکٹ پاکستان ٹیم کو سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر سمجھ رہے تھے۔

  پاکستان کا بھارت سے یکطرفہ مقابلے میں شکست ہوئی—تصویر: اے ایف پی
پاکستان کا بھارت سے یکطرفہ مقابلے میں شکست ہوئی—تصویر: اے ایف پی

ٹاس جیت کر پاکستانی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو نیوزی لینڈ کے خلاف رنز بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنے والے بابر اعظم کچھ اسٹروکس کھیلتے نظر آئے مگر دوسری جانب امام الحق رنز بنانے میں مشکلات کا شکار تھے۔ پھر جب دونوں اوپنرز ہی ایک کے بعد ایک پویلین لوٹ گئے تو محمد رضوان نے آ کر گیندیں روکنا شروع کر دیں۔ ایک جانب سعود شکیل اسٹرائیک روٹیٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو دوسری جانب محمد رضوان کی بیٹنگ سے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ٹیسٹ کرکٹ میں فالو آن بچانے والی اننگز کھیلی جارہی ہے۔

  پاکستانی اوپنرز جلد پویلین لوٹ گئے—تصویر: اے ایف پی
پاکستانی اوپنرز جلد پویلین لوٹ گئے—تصویر: اے ایف پی

پاکستانی اننگز میں جب بھی لگا کہ اب پاکستانی ٹیم تیزی سے اسکور کر سکتی ہے تب ہی ایک پر ایک دو تین وکٹیں گرتی رہیں اور یوں پاکستانی اننگز کسی بھی لمحے مومینٹم نہ پکڑ سکی۔ محمد رضوان اور سعود کی پارٹنرشپ کے اختتام پر کچھ ایسا لگ رہا تھا کہ اگر پاکستانی بلے باز اننگز کا اختتام بہتر انداز سے کر جائیں تو اسکور 300 کے قریب پہنچ سکتا ہے جو اس پچ پر ایک اچھا اسکور ثابت ہوسکتا تھا۔

محمد رضوان، سعود شکیل اور طیب طاہر بہت خراب شاٹس کھیل کر پویلین لوٹے تو 300 کی امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ پھر سلمان آغا اور خوشدل شاہ کی پارٹنر شپ میں لگا کہ شاید ٹیم 275 رنز تک پہنچ جائے لیکن ایک بار پھر ایک ساتھ دو وکٹیں گر گئیں اور پاکستانی ٹیم 250 تک بھی نہ پہنچ پائی۔

بھارتی اننگز میں پاکستان ٹیم کو جلد وکٹیں درکار تھیں لیکن پاکستانی باؤلرز کی بے تکی باؤلنگ اور نہایت ناقص فیلڈنگ نے یہ امکان ہی ختم کردیا۔ شاہین آفریدی نے روہت شرما کو ایک خوبصورت یارکر پر پویلین تو لوٹا دیا لیکن پھر پہلے نسیم شاہ ویرات کوہلی کی اٹھائی گیند تک ہی نہ پہنچ پائے اور اگلی ہی گیند پر خوشدل شاہ نے شبمن گل کا کیچ چھوڑ دیا۔

  پاکستانی باؤلرز نے انتہائی ناقص باؤلنگ کا مظاہرہ کیا—تصویر: اے ایف پی
پاکستانی باؤلرز نے انتہائی ناقص باؤلنگ کا مظاہرہ کیا—تصویر: اے ایف پی

میچ میں واپسی کے لیے بھارتی بلے بازوں بالخصوص نئے بلے بازوں جیسے ویرات کوہلی پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت تھی۔ پچھلے کچھ عرصے سے دیکھا گیا ہے کہ ویرات کوہلی آف اسٹمپ سے باہر کی گیندوں پر مشکلات کا شکار رہتے ہیں لیکن پاکستانی فاسٹ باؤلرز آف اسٹمپ سے باہر گیندیں کروانے کی بجائے کوہلی کو اسٹمپس کے اندر باؤلنگ کرواتے رہے، آگے گیندیں پھینکنے کے بجائے شارٹ پچ باؤلنگ کرواتے رہے اور اسی سے میچ میں واپسی کا ہر موقع ہاتھ سے نکلتا چلا گیا۔

پاکستانی فاسٹ باؤلرز زور لگاتے رہے اور بھارتی بلے باز گیند کو باؤنڈری لائن کے پار بھیجتے رہے۔ حارث رؤف کی ایک شارٹ پچ گیند پر کیچ کیا چھوٹا کہ اس کے بعد حارث رؤف نے یہی لینتھ پکڑ لی اور خوب پٹے۔ وہیں شاہین شاہ آفریدی جب بھی باؤلنگ پر آئے، تمام بھارتی بلے بازوں نے ان کے خلاف کریز سے نکل کر اسٹروکس کھیلیں اور کیا خوب کھیلیں۔

اس میچ میں پاکستان کی جانب سے صرف ابرار احمد ہی اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے نظر آئے اور انہوں نے ایک بہت خوبصورت گیند پر شبمن گل کو بولڈ بھی کیا لیکن انہیں دوسری جانب سے اچھے ساتھ کی ضرورت تھی۔ شاید پاکستان ٹیم میں ایک اور اسپیشلسٹ اسپنر اور ہوتا تو یہ میچ تھوڑا دلچسپ ہو سکتا تھا۔

ویرات کوہلی نے ایک اور آئی سی سی ٹورنامنٹ میچ میں پاکستان کے خلاف شاندار اننگز کھیل دی اور میچ بھی جتوا گئے۔ کوہلی کی اس اننگز کو دیکھ کر پاکستانی شائقین حسد و رشک میں مبتلا رہے کہ وہ کب کسی پاکستانی بلے باز کو کسی بڑے میچ میں ایسی ہی شاندار اننگز کھیلتا دیکھ پائیں گے۔

  کوہلی ایک بار پھر پاکستان کے خلاف شاندار اننگز کھیل گئے—تصویر: رائٹرز
کوہلی ایک بار پھر پاکستان کے خلاف شاندار اننگز کھیل گئے—تصویر: رائٹرز

پاکستانی ٹیم چیمپیئنز ٹرافی سے تقریباً باہر ہوچکی ہے اور نیوزی لینڈ کی بنگلہ دیش کے خلاف فتح کے ساتھ ہی اس پر یقین کی مہر بھی ثبت ہوجائے گی۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان محمد رضوان کہیں کہتے پائے گئے تھے کہ ’یا تو ون ہے یا لرن ہے‘ کہ یا تو ہم میچ جیت جائیں گے یا کچھ سیکھیں گے۔ باہمی سیریز کے علاوہ پاکستانی ٹیم کہیں جیتتی نظر آتی ہے نہ ہی پچھلی شکستوں سے کچھ سیکھتی نظر آتی ہے۔ باقی ٹیموں کے بلے باز اب ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اس اسٹرائیک ریٹ سے کم ہی کھیلتے ہیں جس اسٹرائیک ریٹ سے ہمارے بلے باز اننگز کی تعمیر کرتے نظر آتے ہیں۔

وائٹ بال فارمیٹ میں اوپر نیچے وکٹیں گرتی رہتی ہیں لیکن آج کے کھلاڑی جانتے ہیں کہ جیت کے لیے صرف اور صرف تیزی سے رنز بنانے کی ضرورت ہے۔ جتنا وقت بلے باز سیٹل ہونے میں ضائع کرتا رہے گا، میچ اتنا ہی ٹیم کے ہاتھوں سے نکلتا چلا جائے گا لیکن ہمارے بلے باز یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اوپنرز سے لے کر مڈل آرڈر اور پھر لوئر مڈل آرڈر بلے باز، سب کو سیٹل ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔

  ہمارے بلے باز پرانی طرز کی کرکٹ کھیلتے ہیں—تصویر: اے ایف پی
ہمارے بلے باز پرانی طرز کی کرکٹ کھیلتے ہیں—تصویر: اے ایف پی

پاکستانی ٹاپ آرڈر میں ایک جیسے بلے بازوں کی موجودگی بھی پاکستانی ٹیم کو پرانے دور کی بیٹنگ پر مجبور کیے رکھتی ہے۔ امام الحق، بابر اعظم، محمد رضوان، سعود شکیل اور سلمان آغا کو سیٹل ہونے کے لیے کئی اوورز کی ضرورت رہتی ہے۔ شاذ و نادر ایسا ہوتا ہے کہ سیٹ ہوکر یہ بلے باز ضائع کی گئی گیندوں کی کسر نکال دیتے ہوں لیکن زیادہ تر تو سیٹ ہونے کے لیے کھیلی گئیں ڈاٹ بالز شکست کا سبب بن جاتی ہیں۔

دوسری جانب ہمارے فاسٹ باؤلرز پچھلے کچھ عرصے سے رنز لیک کرنے کی مشین بن چکے ہیں۔ نہ شروع میں رنز روک پاتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے ڈیتھ اوورز میں رنز روکنا ممکن ہو پاتا ہے۔ پاکستانی باؤلرز کی باؤلنگ دیکھ کر کم ہی ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی منصوبہ بندی کے تحت باؤلنگ کروا رہے ہیں جبکہ اکثر اوقات یہ سوچے سمجھے بغیر زور لگاتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں اکثر تماشائیوں کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا ہمارے کوچز بھی کچھ کام کر رہے ہیں یا نہیں؟

پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں اکثر یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ کوچز کی کم ہی سنتے ہیں۔ تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیو رکسن کے دور میں پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ کیوں دنیا میں سب سے بہتر ہو گئی تھی؟ وقار یونس کی باؤلنگ کوچنگ کے دوران فاسٹ باؤلرز یارکرز کا بہترین استعمال کیوں کرنے لگے تھے؟ میتھیو ہیڈن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران ایک ماہ سے بھی کم عرصہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ رہے تھے تو پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ اپروچ کیسے بہتر ہوگئی تھی؟ سب سے بڑھ کر جب مکی آرتھر 2019ء سے پہلے پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ تھے اور انہوں نے پاکستانی ٹیم میں فٹنس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا تو پاکستانی ٹیم کی فٹنس کیسے بہتر ہو گئی تھی؟

انہی سوالات کے جوابات میں پاکستانی ٹیم کی مشکلات کا حل موجود ہے، بس عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جگاڑ لگا کر وقتی طور پر مسائل کا حل نکالنے سے ایک آدھ سیریز تو جیتی جا سکتی ہے لیکن طویل دورانیے کے لیے یہ جگاڑ ٹیم کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتے ہیں۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔