لیبیا کے راستے یورپ تک انسانی اسمگلنگ میں اضافہ، حکام کیا کررہے ہیں؟
فیصل* اور علی* جو بالترتیب 15 اور 16 سال کے ہیں، ان کا صرف ایک ہی خواب تھا، اٹلی جانا۔ انہوں نے اپنے ان دوستوں اور دیگر لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھی تھیں جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور ایک بہتر زندگی گزار رہے تھے۔
دونوں بھائی جانتے تھے کہ ان کے آبائی علاقے، فیصل آباد اور اس کے اردگرد کے دیہات میں بڑے بڑے گھر انہی لوگوں کے ہیں جن کی فیملی کا ایک فرد یا ایک سے زائد افراد روزگار کے لیے ملک سے باہر مقیم ہیں۔
انہوں نے اپنے بڑے بھائی سلمان* کو رقم دینے کے لیے آمادہ کیا۔ ابتدائی طور پر دونوں بھائیوں کو 20، 20 لاکھ روپے ایجنٹ کو ادا کرنے تھے جو انہیں یورپ پہنچاتا۔
ڈان سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے 28 سالہ سلمان نے بتایا کہ ’بقیہ فی فرد 15، 15 لاکھ اس وقت ادا کرنے تھے کہ جب وہ کشتی کو طرابلس سے اٹلی لے جانے والے تھے۔ ان کے سفر کے لیے ہم نے اپنی زمین کا ایک ٹکڑا فروخت کردیا تھا‘۔
ایجنٹ کی جانب سے ایک ہفتے میں بھائیوں کو اپنے پاسپورٹس واپس مل گئے جس میں سعودی عرب کا عمرا ویزا لگا ہوا تھا اور وہ گزشتہ سال نومبر میں روانہ ہوگئے۔ سعودی عرب سے وہ بذریعہ ہوائی جہاز مصر گئے اور پھر بس کے ذریعے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پہنچے جہاں سے بذریعہ کشتی انہیں بحیرہ روم کے راستے اٹلی کے جنوب میں جانا تھا۔
حالیہ عرصے میں غیرقانونی تارکین وطن کی کشتیوں کے حادثات کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس میں رواں سال جنوری میں ہونے والا کشتی حادثہ بھی شامل ہے جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ یہ لوگ افریقہ کے شمال مغرب میں واقع موریطانیہ سے بحر اوقیانوس کے راستے اسپین جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
لیبیا کی جانب سفر میں اضافہ
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسداد انسانی اسمگلنگ اور اسمگلنگ ونگ کے ایک اہلکار جو اس سے قبل جون 2023ء کے یونان کشتی سانحے کی تحقیقات کرچکے ہیں جس میں تقریباً 300 پاکستانیوں سمیت 700 افراد ڈوب گئے تھے، کا کہنا ہے کہ ایسے تمام حادثات کی اطلاع نہیں دی جاتی ہیں۔
وہ ڈان کو بتاتے ہیں کہ ’لیبیا کے ساحل مشرق میں توبروک سے مغرب میں طرابلس تک روزانہ 10 سے 15 کشتیاں اٹلی کے لیے روانہ ہوتی ہیں‘۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق 2024ء میں ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد تارکین وطن اور پناہ گزین یورپ پہنچے جن میں سے 90 فیصد سے زائد نے پُرخطر سمندری راستہ اختیار کیا۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق، 2016ء کے بعد 2023ء بحیرہ روم میں اموات کے اعتبار سے سب سے مہلک سال رہا جہاں 3 ہزار 100 سے زائد اموات سمندر میں ڈوب کر ہوئیں۔
2025ء کی ایک رپورٹ جس کا عنوان ’ریسکیو آپریشنز ایٹ سی: دی مائیگریشن ڈیل بیٹوین اٹلی اینڈ لیبیا‘ میں بتایا گیا ہے کہ 2013ء سے 2020ء کے درمیان 6 لاکھ 80 ہزار تارکین وطن اٹلی کے ساحلوں تک پہنچے جبکہ 17 ہزار سے زائد سمندر پار کرنے کی کوششوں کے دوران ہلاک ہوئے۔
یونان کشتی سانحے کے بعد یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس نے کہا کہ 2023ء کے پہلے 5 ماہ میں 2022ء کے ابتدائی 5 ماہ کے مقابلے میں پکڑے جانے والے غیرقانونی کراسنگ کی تعداد دگنی سے بھی زائد (50 ہزار 318) ریکارڈ کی گئی جو کہ 2017ء کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔
اس غیرقانونی نقل و حمل سے جنگ زدہ لیبیا کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرنے والوں کے لیے آمدنی کے ذرائع بنے۔ اقوام متحدہ کے عالمی جرائم اور انصاف کے تحقیقی ادارے کی 2021ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کی بنیاد پر، تارکین وطن کی اسمگلنگ لیبیا کی سالانہ آمدنی 8 کروڑ 90 لاکھ سے 23 کروڑ 60 لاکھ امریکی ڈالرز کے درمیان تھی۔
پاکستان میں تفتیش کار نے وضاحت کی کہ لیبیا ایسے غیر دستاویزی تارکین وطن کے لیے نئی ترجیح بن چکا ہے جبکہ دیگر ممالک میں ’ڈنکی‘ کے لیے استعمال ہونے والے زمینی راستوں پر سرحدی کنٹرول میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ’ڈنکی‘ کی اصطلاح دراصل ان لوگوں کے لیے تھی جو پاکستان کی سرحد سے افغانستان اور ایران اور پھر عراق، ترکی یا وسطی ایشیا جانے کے لیے گدھے کا استعمال کرتے تھے لیکن اب یہ ان تمام غیر رسمی تارکین وطن کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ان راستوں سے سفر کرتے ہیں۔
تفتیش کار کا کہنا ہے کہ ’لیبیا میں استعمال ہونے والی کشتیاں اکثر چھوٹی اور لکڑی کی بنی ہوتی ہیں جن میں 15 سے 20 افراد سوار ہوتے ہیں جبکہ کشتی کا کپتان بھی لیبیا میں قیام کے دوران تربیت یافتہ پناہ گزین ہوتا ہے۔ بڑی کشتیاں بھی ہوتی ہیں اور جب وہ بڑی حادثے کا شکار ہوجاتی ہیں تو یہ عالمی خبر بن جاتی ہے‘۔
وہ کہتے ہیں، ’ہمارے ریکارڈ بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو سالوں سے سالانہ اوسطاً 15 سے 16 ہزار پاکستانی لیبیا جارہے ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد لیبیا سے بذریعہ کشتی یورپ جاتے ہیں‘۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ زیادہ تر کاروبار گجرات کے سنیارا برادران کے زیرِ کنٹرول ہے۔ سنیارا تقریباً دو دہائیوں سے اس کاروبار میں ملوث ہیں اور پاکستان میں ذیلی ایجنٹس کا ان کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے۔ لیبیا اور پاکستان دونوں میں امیگریشن افسران، مصر اور ترکی میں انسانی اسمگلرز کے ساتھ ساتھ لیبیا میں فوج کے اہلکار جو مختلف علاقوں کو اپنے پے رول پر کنٹرول کرتے ہیں، سب اس نیٹ ورک میں شامل ہیں۔
تفتیش کار بتاتے ہیں کہ پاکستان سے آنے والے تارکین وطن کے لیے زمینی راستے بھی غیرمحفوظ ہیں جس کا اندازہ ہے کہ ’پاکستان سے سالانہ ایک لاکھ تارکین وطن مذہبی زیارتوں کے بہانے ایران اور عراق میں داخل ہوتے ہیں جہاں سے وہ یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
’کریک ڈاؤن دکھاوا تھا‘
یونان کشتی حادثے کے بعد پاکستانی سیاستدانوں نے حسبِ توقع شدید ردعمل دیا اور ایف آئی اے کو انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا حکم دیا۔ نتیجتاً کراچی، لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ کے ہوائی اڈوں پر امیگریشن ڈیپارٹمنٹ میں تعینات اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
ایف آئی اے کے تفتیش کار کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم ایک نیٹ ورک یا ایک راستے کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں تو ایک نیا سب ایجنٹ نئی منزل کے ساتھ اپنا کاروبار کرنے لگتا ہے‘۔
’لیکن سب سے بڑا مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو زیادہ رقم کے قطع نظر یورپ جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ایک تفتیش کے دوران کشتی حادثے میں لاپتا ہونے والے ایک شخص کا باپ چاہتا تھا کہ میں زیرِ تفتیش ایجنٹس سے پوچھوں کہ ان کا دوسرا بیٹا اسی طرح کیسے یورپ جاسکتا ہے‘، انہوں نے مایوس کُن لہجے میں کہا۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کے 2023ء کے مطالعے میں سامنے آیا کہ گزشتہ تین سالوں میں 24 ہزار پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپی یونین کے ممالک میں داخل ہوئے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شمالی پنجاب کے علاقوں گجرات، گوجرانوالہ اور منڈی بہا الدین سے سب سے زیادہ لوگوں نے غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کی ہے، ان میں پختون اور کشمیری بھی شامل ہیں جبکہ ملک سے باہر جانے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ یورپی یونین ایجنسی برائے اسائلم کے مطابق اکتوبر 2023ء اور اکتوبر 2024ء کے درمیان پاکستانی شہریوں نے یورپی یونین میں پناہ کی 28 ہزار درخواستیں جمع کروائیں۔
ڈان سے گفتگو میں متعدد تفتیش کاروں نے بتایا کہ تارکین وطن کو ملک سے باہر جانے سے روکنے میں ناکامی کے لیے امیگریشن حکام کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن صرف دکھاوا تھا جس کا مقصد ناقدین کو خاموش کروانا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ہم ایسے لوگوں کو نہیں روک سکتے جو ہمارے پاس ویزا لے کر آتے ہیں’۔
حال ہی میں وفاقی حکومت نے پالیسی فیصلہ لیا ہے جس کے تحت مخصوص علاقوں اور اضلاع سے آنے والے افراد کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی جو مخصوص ممالک جانا چاہتے ہیں۔ لاہور میں ایف آئی اے اہلکار نے کہا، ’ان لوگوں میں عمرا کے لیے سعودی عرب جانے والے لوگ بھی شامل ہوں گے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ پالیسی کے بعد سے پروازوں سے اتارے جانے والے مسافروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے پہلے دو ماہ میں لاہور ایئرپورٹ پر 3 ہزار 500 سے زائد مسافروں کو جہاز سے اتارا گیا جبکہ گزشتہ سال پہلے دو ماہ میں یہی تعداد ایک ہزار 293 تھی۔ ۔ وہ کہتے ہیں، ’ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں جو جائز وجوہات کی بنا پر سفر کررہے تھے‘۔
یورپی ساحل تک رسائی
فروری میں سلمان کو ایجنٹ کی کال آئی کہ وہ بقیہ رقم منتقل کردیں تاکہ ان کے بھائیوں کو کشتی پر لیبیا لے جایا جا سکے۔ سلمان کا کہنا ہے کہ اس نے گھر پر کسی کو نہیں بتایا تاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔’لیکن میں اگلے تین دنوں تک سو نہیں پایا‘۔
سرحد پار کرنے کی کوشش کے دوران ان کے بھائیوں کو لیبیا کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ سلمان کا کہنا ہے کہ ’ہر تارکین وطن کے لیے ایک مقررہ شرح کے ساتھ ایجنٹس کا پولیس کے ساتھ معاملہ طے ہے‘۔ ان کے بھائی نے رہائی سے قبل دو ہفتے جیل میں گزارے۔ دو دن بعد رات کو اس کے ایک بھائی کا فون آیا کہ وہ کشتی میں سوار ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی پانیوں تک پہنچنے کے لیے کشتیاں عموماً 6 سے 8 گھنٹے کا سفر طے کرتی ہیں۔ مختلف تارکین وطن کے مطابق کشتیاں بین الاقوامی پانیوں میں انتظار کرتی ہیں تاکہ اٹلی یا یونان کے کوسٹ گارڈز انہیں دیکھیں، انہیں بچائیں اور اقوام متحدہ کے کیمپس میں منتقل کریں۔
بھائی کی کال کے ایک روز بعد سلمان کو ایجنٹ کی جانب سے کال موصول ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ہمت جمع کرکے کال ریسیو کی کیونکہ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ مجھے کیا بتانے والا ہے‘۔
سلمان کو اس وقت راحت ملی جب ایجنٹ نے انہیں بتایا کہ ان کے دونوں بھائی خیریت سے اٹلی کے شہر سیسیلی پہنچ چکے ہیں اور اس وقت اقوامِ متحدہ کے کیمپ میں مقیم ہیں۔
وہ کہتے ہیں،’ وہ اب اپنے خواب جیئیں گے اور امید ہے کہ ہمارے خوابوں کے حصول میں ہماری مدد بھی کریں گے’۔
رازداری کی غرض سے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔