شامی حکومت کا بشارالاسد کے حامیوں کےخلاف آپریشن ختم کرنے کا اعلان
شام کے نئے حکمرانوں نے معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے خلاف آپریشن ختم کرنے کا اعلان کر دیا، حالیہ آپریشن کے دوران بدترین تشدد کے واقعات میں ایک ہزار شہریوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ملی تھیں۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے یف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعرات سے اب تک کم از کم 973 عام شہریوں کے قتل عام کی اطلاع دی تھی، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق علوی اقلیت سے تھا جنہیں سیکیورٹی فورسز یا اتحادی گروپوں نے پھانسی دی۔
علوی اقلیت کے ساحلی مرکز میں لڑائی کا تعلق معزول صدر سے ہے، اسد قبیلے کی دہائیوں کی آہنی حکمرانی کے بعد اقتدار کی منتقلی سے افراتفری کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔
وزارت دفاع کے ترجمان حسن عبدالغنی نے سرکاری خبر رساں ادارے ’سانا‘ کو ایک بیان میں بتایا کہ حکام نے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع لاذقیہ اور طرطوس صوبوں میں سلامتی کے خطرات اور ’اسد حکومت کی باقیات‘ کے خلاف بڑے پیمانے پر ’فوجی آپریشن‘ ختم کر دیا ہے۔
یہ اعلان عبوری صدر احمد الشرع نے کیا، جنہوں نےکہا تھا کہ ملک کو اب دوبارہ کبھی خانہ جنگی میں نہیں دھکیلا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی غیر ملکی طاقت یا ملکی فریق کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ شام کو افراتفری یا خانہ جنگی کی طرف گھسیٹ لے۔
انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ شہریوں کے قتل میں ملوث اور اختیار سے تجاوز کرنے والے کسی بھی شخص کا بلاتفریق احتساب کیا جائے گا۔
صوبہ لاذقیہ کے علاقے جبلہ میں ایک رہائشی نے روتے ہوئے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ انہیں شہر کا کنٹرول سنبھالنے والے مسلح گروہوں کی جانب سے ’دہشت زدہ‘ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے اہل خانہ اور دوستوں میں سے 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، انہوں نے لاشوں کو جمع کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کیا۔
کچھ علاقوں میں رہائشیوں نے عارضی طور پر باہر نکلنا شروع کر دیا ہے، لیکن بہت سے لوگ اب بھی اندھیرے کے بعد گھر چھوڑنے سے ڈرتے ہیں، بنیادی سامان کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کی ایک 22 سالہ طالبہ فرح نے بتایا کہ آج لاذقیہ میں حالات قدرے پرسکون ہیں، لوگ 5 دن کی بے چینی اور انتہائی خوف کے بعد باہر آئے ہیں، لیکن صورتحال اب بھی ’بہت کشیدہ‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 6 بجے کے بعد آپ کو گلی میں کوئی نظر نہیں آتا، یہ بھوت شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
شام میں علوی اکثریتی علاقے میں جمعرات کے روز جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب معزول صدر بشار الاسد کے وفادار مسلح افراد نے شام کی نئی سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا۔