• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm

کراچی اور ڈھاکا کو 2050 تک 54 لاکھ موسمیاتی پناہ گزینوں کا سامنا ہوگا، اقوام متحدہ

شائع March 24, 2025

اقوام متحدہ کے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا صنعتی ترقی سے پہلے کی سطح سے 1.5 سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوتی ہے تو عالمی جنوب کے 10 شہروں میں کراچی اور ڈھاکا ایشیا بحرالکاہل خطے کے صرف دو شہر ہوں گے جہاں 2050 تک 80 لاکھ موسمیاتی تارکین وطن آئیں گے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا و بحرالکاہل (یو این-ایس کیپ) کی جانب سے شائع ہونے والی ’ایشیا اور بحرالکاہل میں شہری تبدیلی: ترقی سے لچک تک‘ رپورٹ کے مطابق ان 10 شہروں میں سے کراچی اور ڈھاکا میں آب و ہوا کی وجہ سے سب سے زیادہ نقل مکانی کا امکان ہے، ڈھاکا میں اضافی 30 لاکھ 70 ہزار اور کراچی میں 24 لاکھ اضافی افراد کی آمد متوقع ہے۔

یہ رپورٹ آئندہ ماہ بنکاک میں شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے 81 ویں سالانہ اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اس میں پورے خطے کے شہروں اور قصبوں کو درپیش مسائل اور مواقع دونوں کا تجزیہ کیا گیا ہے ، جو دنیا کے سب سے بڑےشہر سے لے کر قدیم دیہات اور اس کے درمیان ہر حجم کے شہر اور قصبات میں انسانی بستیوں کا احاطہ کرتا ہے۔

کراچی منقسم دائرہ اختیار سے بہت زیادہ متاثر ہے، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ناطے یہ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے گلوبل لیویبلٹی سروے میں باقاعدگی سے نچلے درجے کے قریب ہے، دسیوں ہزار خاندانوں پر مشتمل شہر کو مقامی حکومت کے کنٹرول سے ماورا سرکاری شعبے کے حکام کی نگرانی میں چلایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اہم بنیادی ڈھانچے کو مربوط کرنے سے قاصر ایک دوسرے سے متصل اور غیر واضح دائرہ اختیار پیدا ہوتا ہے۔

یہ صورت حال اگست 2020 کے سیلاب جیسی آفات کا باعث بن سکتی ہے جس نے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا لیکن لاہور جیسے بہتر حکمرانی کے حامل شہروں کو نسبتاً محفوظ چھوڑ دیا تھا۔

اس وقت تمام تارکین وطن میں سے ایک تہائی کا تعلق ایشیا اور بحرالکاہل سے ہے جبکہ اس خطے میں دنیا بھر کے 24 فیصد تارکین وطن موجود ہیں جو تقریباً 6کروڑ 66 لاکھ افراد بنتے ہیں، ایشیا بحرالکاہل میں 2.2 ارب سے زیادہ شہری آبادی اور زمین کے بہت سے بڑے بڑے شہرموجود ہیں، دنیا کے 30 سب سے بڑے شہری علاقوں میں سے نصف سے زیادہ اس خطے میں پائے جاتے ہیں۔

2050 تک یہ شہری آبادی 50 فیصد اضافے سے 1.2 ارب افراد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

1960 کی 16 فیصد شہری آبادی کے مقابلے میں رواں دہائی میں جنوب اور جنوب مغربی ایشیا کے تقریباً 36 فیصد باشندے شہروں میں مقیم ہیں۔

دریں اثنا، بڑے شہر بھی ہیں جن میں گنجان آباد ڈھاکا، کراچی، ممبئی اور دیگر شامل ہیں، توقع ہے کہ 2036 تک 40 فیصد بھارت شہری آبادی پر مشتمل ہوگا اور شہر ملک کے 70 فیصد جی ڈی پی کا ذریعہ ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ 2047 تک ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے شہروں کی پائیدار آبادکاری ضروری ہے۔

آب و ہوا کی تبدیلی سے مطابقت اور تخفیف ایشیا اور بحرالکاہل کے لئے ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے ، جسے انتہائی درجہ حرارت ، پانی کی قلت ، غذائی عدم تحفظ اور قدرتی آفات جیسی کمزوریوں سے نمٹنا ہوگا، ایشیا بحرالکاہل کے ممالک ان ملکوں میں شامل ہیں جو شدید موسمی واقعات جیسے طوفان، سیلاب اور ہیٹ ویو سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طویل مدت میں جیسے جیسے آب و ہوا کے بحران میں تیزی آتی ہے،شہروں اور قصبوں کو ان لوگوں کے لیے موافقت میں مدد فراہم کرنی چاہیے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جو کچھ نشیبی علاقوں میں پہلے ہی واضح ہو رہی ہے۔

ارب ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ کی وجہ سے شہر خاص طور پر شدید گرمی کا شکار ہیں، عمارتوں اور پکی تعمیرات میں گرمی جذب کرنے کا رجحان شہری علاقوں کو ان کے اطراف کے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ گرم بنا سکتا ہے ، جس سے ہیٹ ویو کے اثرات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایشیا اور بحرالکاہل میں شہری آبادی میں اضافے کی وجہ سے پانی کی طلب اور زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال میں اضافہ ہوا ہے ، جس سے خطے کے آبی وسائل میں کمی واقع ہوئی ہے، وسیع پیمانے پر زیر زمین پانی نکالنے اور قدرتی بفرز کے نقصان نے زمین کے سکڑنے کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔

اگرچہ یہ خطرہ بنکاک، ڈھاکا، ہو چی من سٹی، جکارتہ، کراچی، منیلا، ممبئی، شنگھائی اور تیانجن جیسے بڑے شہروں میں سب سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے، لیکن اسی طرح کے حالات ثانوی اور دیگر شہروں جیسے کہ بنگلہ دیش میں چٹاگانگ اور انڈونیشیا میں سیمارنگ کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔

عمارتیں، جو ہر جگہ موجود ہیں اور ایشیا اور بحرالکاہل میں براہ راست اور بالواسطہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا 14 سے 33 فیصد کا سبب ہیں ، کاربن کو ختم کرنے کے لیے عالمی معیشت کے سب سے مشکل پہلوؤں میں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ترسیلات زر ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے فنانسنگ کا ایک اہم ذریعہ ہیں، سال 2023 میں ترسیلات زر حاصل کرنے والے پانچ سرفہرست ممالک میں بھارت (120 ارب ڈالر)، چین (50 ارب ڈالر)، فلپائن (39 ارب ڈالر) اور پاکستان (27 ارب ڈالر) شامل ہیں۔

دریں اثنا، جنوب اور جنوب مغربی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا وہ ذیلی خطے ہیں جہاں ایشیا اور بحر الکاہل میں غیر رسمی بستیوں کا سب سے زیادہ ارتکاز ہے، جنوب اور جنوب مغربی ایشیا میں تقریباً 43 فیصد اور جنوب مشرقی ایشیا میں 25 فیصد شہری آبادی غیر رسمی بستیوں میں رہتی ہے۔

رپورٹ میں خطے کی حکومتوں کو سفارش کی گئی ہے کہ وہ ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی خطرات سے موثر اور مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے علاقائی تعاون میں اضافہ کریں اور مشترکہ شہری نیٹ ورکس تیار کریں جو شہروں کے درمیان معلومات اور بہترین طریقہ کار کے تبادلے میں سہولت فراہم کریں اور اس طرح انہیں پائیدار ترقیاتی اہداف اور پیرس معاہدے کے مقاصد کے حصول کے لیے علاقائی قیادت کے لیے محرک کے طور پر کام کرنے کے قابل بنائیں۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025