• KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:47pm
  • LHR: Asr 4:34pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:27pm
  • KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:47pm
  • LHR: Asr 4:34pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:27pm

ایڈولیسنس: ایسی سیریز جو تمام والدین کو دیکھنے کی ضرورت ہے

شائع March 26, 2025

عموماً والدین کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے باخوبی واقف ہیں۔ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا بچہ کب کس وقت، کس کے ساتھ کہاں ہے اور کیا کررہا ہے، وہ اچھے والدین ہیں۔ انہیں گمان ہوتا ہے کہ اپنے بچے کی آن لائن سرگرمیوں سے واقفیت رکھنا ہی سب سے اہم ہے۔ لیکن یہ گمان کس حد تک غلط ثابت ہوسکتا ہے اس کا اندازہ مجھے نیٹ فلیکس کی نئی منی تھرلر سیریز ’ایڈولیسنس‘ (Adolescence) سے ہوا۔

4 اقساط پر مشتمل اس لمیٹڈ سیریز کے حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر خوب چرچے ہیں اور ترغیب دی جارہی ہے کہ تمام والدین کو یہ تھرلر سیریز ضرور دیکھنی چاہیے۔ عموماً نیٹ فلیکس پر ایسی بہت کم سیریز آتی ہیں جن کے بارے میں ایسے دعوے کیے جائیں۔ پذیرائی نے مجھے بھی مجبور کیا کہ میں یہ سیریز دیکھوں۔ (یہاں تحریر میں مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں اسپائلر الرٹ دینا چاہوں گی)

کہانی

کہانی کا آغاز ایک گھر پر پولیس کمانڈوز کے چھاپے سے ہوا جس سے لگا کہ جیسے وہ کسی انتہائی خطرناک مفرور سیریل کلر کو گرفتار کرنے آئے ہیں لیکن وہ ایک 13 سالہ بچے جیمی کو گرفتار کرنے آئے ہوتے ہیں۔ بچہ کم عمر ہے خوب روتا ہے اور اپنے باپ سے بار بار کہتا ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔ اس کا باپ اسے خوب بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن پولیس وارنٹ کے ساتھ آتی ہے اور بچے کو پولیس اسٹیشن لے جایا جاتا ہے جہاں اس کا ابتدائی طبی معائنہ، تلاشی اور دیگر ضوابط پورے کیے جاتے ہیں اس دوران بچے کو کم عمری کی وجہ سے اجازت دی جاتی ہے کہ وہ کمرہ تفتیش میں وکیل کے ساتھ کسی جاننے والے کو بھی اپنے ساتھ بٹھا سکتا ہے اور بچہ اپنے باپ کا انتخاب کرتا ہے۔

جیمی کو قتل کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہوتا ہے۔ تفتیش سے پہلے باپ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ کیا تم نے قتل کیا ہے جس پر بیٹا انکار کردیتا ہے اور باپ بھی مطمئن ہوجاتا ہے کہ اس کا بچہ بہت چھوٹا ہے، وہ ایسا نہیں کرسکتا۔

تفتیش کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے اور دیگر معمول کے سوالات کے ساتھ ساتھ مقتولہ جوکہ مشتبہ ملزم کی ہم جماعت ہوتی ہے، سے تعلقات کی نوعیت کے حوالے سے سوالات پر بچہ انتہائی مہارت سے ’نو کمنٹ‘ کہہ کر تفتیش کو سنبھال لیتا ہے لیکن پھر پولیس افسران، ملزم کے سامنے وہ شواہد رکھتے ہیں جن کی بنا پر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ویڈیو ہوتی ہے جس میں جیمی مقتولہ (کیٹی) کا پیچھا کررہا ہوتا ہے اور ایک اور ویڈیو میں وہ چاکو کے وار کرکے اسے قتل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کیٹی کو 7 بار وار کرکے قتل کیا گیا تھا۔ جس عمر میں بچے موت کے حقیقی معنی تک سمجھ نہیں پاتے اس عمر میں بیٹے کو قتل کرتے دیکھنا باپ کے لیے کسی قیامت خیز منظر سے کم نہیں ہوتا۔

کہانی میں آگے پولیس اسکول جاتی ہے تاکہ قتل کی وجہ کا سراغ لگایا جاسکے اور آلہ قتل بھی برآمد ہوسکے۔ بعدازاں لڑکے کا دوست پولیس افسر سے اعتراف کرتا ہے کہ قتل میں استعمال ہونے والا چاکو اس کا تھا۔

اس سیریز کا سب سے خوفناک حصہ ملزم جیمی کی سائیکولوجسٹ کے ساتھ بات چیت تھی جو یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر بچے نے قتل جیسا انتہائی قدم کیوں اٹھایا۔ سوالات کے آغاز میں وہ کوشش کرتی ہے کہ بچے کے باپ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جان پائے تاکہ اسے اندازہ ہوسکے کہ بچہ مرد ہونے کے حوالے سے کیا سوچتا ہے اور یہاں بچے کو لگتا ہے کہ وہ اس سے سچ اُگلوانے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ خوب مشتعل ہوجاتا ہے، چیختا چلاتا ہے، سائیکولوجسٹ کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں پہلی بار بچے کے رویے سے ناظرین کو خوف محسوس ہوگا۔

آگے چل کر سائیکولوجسٹ بچے کے سامنے اسی کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کی چند چیٹس اور پوسٹس رکھتی ہے جن میں بہ ظاہر کچھ نہیں ہوتا لیکن ان میں چند ذو معنی ایموجیز کا استعمال کیا گیا ہوتا ہے۔ سائیکولوجسٹ ان کا مطلب پوچھتی ہے اور یہیں سے بھید کھلتا ہے۔

ملزم مقتولہ کے ہاتھوں بُلنگ کا شکار ہورہا تھا لیکن اس کے والدین کو اس کی خبر نہ تھی۔ یہ بُلنگ عام نوعیت کی نہیں تھی اور یہی چونکا دینے والا تھا۔ بچہ سائیکولوجسٹ سے کہتا ہے کہ وہ بدصورت ہے، کوئی لڑکی اسے پسند نہیں کرتی۔ چونکہ بچہ بلوغت کے مراحل سے گزر رہا تھا اس لیے وہ اپنے اردگرد اپنے دوستوں کو گرل فرینڈز بناتے دیکھتا تھا لیکن کوئی لڑکی اسے پسند نہیں کرتی تھی۔

مقتولہ بھی اس کے ایک دوست میں دلچسپی رکھتی تھی اور اس نے اپنی نامناسب تصاویر اس لڑکے کو متاثر کرنے کے لیے بھیجیں۔ وہ لڑکا اس کی تصاویر اپنے تمام دوستوں کو اسناپ چیٹ پر بھیج دیتا ہے اور ملزم کو لگتا ہے کہ چونکہ یہ لڑکی بدنام ہوچکی ہے سب اسے برا سمجھتے ہیں تو اگر میں اسے ڈیٹنگ کی پیش کش کروں گا وہ تو قبول کرلے گی لیکن کیٹی یہ کہتی ہے کہ وہ ابھی اتنی مجبور نہیں ہوئی۔ یوں جیمی کو شدید بے عزتی کا احساس ہوتا ہے اور کیٹی، جیمی کو آن لائن ہراساں کرنے لگتی ہے۔ وہ ایسے ایموجیز کا استعمال کرتی ہے جو بہ ظاہر تو عام ہوتے ہیں لیکن ان کے معنی ہر کسی کو نہیں معلوم۔

وہ لڑکے کو کہتی ہے کہ ’کوئی لڑکی کبھی اسے پسند نہیں کرے گی‘۔ یہاں ’incel‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جوکہ ایک ایسی اصطلاح جس کے مطلب کے لیے آپ کو گوگل کی مدد ضرور پڑے گی۔

کیٹی کہتی ہے، ’دنیا میں 80 فیصد لڑکیاں 20 لڑکوں کو پسند کرتی ہیں اور تم اس میں شامل نہیں‘۔

جیمی آن لائن بلنگ سے پریشان تھا اور ایک دن وہ کیٹی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تاکہ اس سے نفرت کی وجہ پوچھ سکے مگر جیمی بحث کے بعد کیٹی کو قتل کردیتا ہے۔

یہاں جیمی سائیکولوجسٹ سے کہتا ہے کہ، ’میں اچھا ہوں، میرےہاتھ میں چھڑی تھی، وہ زمین پر گری ہوئی تھی، اگر میں چاہتا تو اسے غلط انداز سے ہاتھ لگا سکتا تھا، سب ایسا کرتے ہیں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا‘۔

تیسری قسط میں اووین کوپر نے جاندار ایکٹنگ کا مظاہرہ کیا گیا ہے
تیسری قسط میں اووین کوپر نے جاندار ایکٹنگ کا مظاہرہ کیا گیا ہے

یہ سین دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کیا کسی کو قتل کرنا آج کل کے بچوں کے لیے اتنا آسان ہوچکا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اس قدر ٹاکسک ہوچکا ہے؟ آخر آج کل کے بچے کیا دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ذہن میں اس طرح کے خیالات پروان چڑھ رہے ہیں؟

جیمی کے کردار نے اس بچے کی بھرپور عکاسی کی ہے جس کے دماغ نے آن لائن بلنگ اور انٹرنیٹ کے دور میں پرورش پائی ہے اور ایسے بچے کس انتہائی رویوں کو اختیار کرسکتے ہیں، اس کی عملی جھلک لرزہ خیز تھی۔

سائیکولوجسٹ بچے سے پوچھتی ہے کہ کیا وہ جانتا ہے کہ موت کیا ہے؟ کیا وہ جانتا ہے کہ اس نے کیٹی کے ساتھ جو کیا اس کے بعد وہ کبھی زندہ نہیں ہوسکتی؟جیمی کہتا ہے وہ جانتا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آسکتا۔

جب ملزم سب بتا دیتا ہے تو سائیکولوجسٹ کہتی ہے کہ یہ ان کے درمیان آخری ملاقات تھی جس پر جیمی بےتاب ہوجاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا وہ اسے پسند نہیں کرتی؟ کیا اسکول کی دیگر لڑکیوں کی طرح وہ بھی اسے پسند نہیں کرتی؟ اس سوال نے لرزہ طاری کردیا تھا کہ آن لائن دور میں بچے کتنی جلدی بڑے ہورہے ہیں اور ان کی سوچ کس قدر تبدیل ہوچکی ہے۔

والدین کے لیے اہم سبق

جن ماں باپ کا 13 سال کا بچہ قتل کا مجرم بن جائے تو ان پر کیا بیتتی ہے، اس سیریز میں اس کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔

جیمی کا والد جو پلمبر ہوتا ہے لیکن معاشرہ اسے ایک قاتل کے باپ کے طور پر جاننے لگتا ہے۔ والدین روز مرتے ہیں، یہ سوچتے ہیں کہ آخر ان سےغلطی کہاں ہوئی۔ ان کی بڑی بیٹی تو ایسی نہیں تو ان کا بیٹا ایسا کیوں بن گیا؟ ان کا بچہ تو ہر نارمل بچے کی طرح تھا ہر بچہ آج کل موبائل کمپیوٹر استعمال کرتا ہے لیکن پھر ہمیں کیسے اندازہ نہیں ہوا کہ وہ اس انتہائی حد تک جا سکتا تھا۔

ماں باپ جتنی کوشش کرلیں وہ نہیں جان سکتے کہ ان کے بچے کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ میری والدہ جو ٹیچر رہ چکی ہیں ان سے میں نے یہ الفاظ سنے ہیں کہ ماں باپ سے زیادہ استاد جانتا ہے کہ بچے کی فطرت کیا ہے۔ بچے کی حقیقی زندگی گھر میں نہیں بلکہ اس کے اسکول میں ہوتی ہے۔

اس سیریز میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایموجیز جو بہ ظاہر بےضرر معلوم ہوتے ہیں جین زی ان کا استعمال ایسے معنوں میں کرتی ہے جن کا والدین کو اندازہ تک نہیں ہوسکتا۔ والدین کو آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ ان کا بچہ کہیں آن لائن بلنگ کا شکار تو نہیں کیونکہ اکثر بچے یہ باتیں شرمندگی کی وجہ سے اپنے والدین کو نہیں بتاتے۔

اس سیریز میں ماں سوال کرتی ہے کہ کیا میں اچھی ماں نہیں تھی جو میں اپنے بیٹے کو جان نہ سکی۔ کسی سنگین صورت حال سے پہلے ہی یہ سوال آج کی ماؤں کو خود سے کرنا چاہیے کہ کیا وہ اپنے بچوں کو واقعی جانتی ہیں؟

یہ سیریز تمام والدین کو دیکھنی چاہیے تاکہ انہیں اندازہ ہوکہ وہ اپنے اپنے بچوں کے حوالے سے کتنے غلط ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا کے جدید دور میں شاید آپ اپنے بچوں کی نفسیات سے بالکل بھی واقف نہ ہوں۔

جیمی کی والدہ ایک موقع پر کہتی ہے کہ جیمی نے کمرہ تفتیش میں اپنے والد کو اسی لیے بٹھایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے ڈیڈ کبھی یقین نہیں کریں گے کہ وہ قتل جیسے اندوہناک جرم کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ یہ والدین کے لیے دھچکا ہے جو اپنے بچوں پر اندھا بھروسہ کرتے ہیں اور جان نہیں پاتے کہ وہ کس طرح مشتعل رویوں کی جانب راغب ہورہے ہیں۔

جاندار ایکٹنگ اور فلموگرافی

ایک اور مضبوط وجہ جس کی بنا پر میں آپ کو ایڈولیسنس دیکھنے کی تجویز دوں گی وہ اس میں اداکاروں کی جاندار ایکٹنگ اور شاندار فلموگرافی ہے۔

ملزم جیمی کا کردار 14 سال کے اداکار اووین کوپر نے ادا کیا ہے جن کی ایکٹنگ نے سب ہی کو لاجواب کردیا ہے۔ اس سیریز کی سب سے بہترین قسط تیسری قسط ہے جس میں اویون کوپر نے جس طرح اس بچے کی عکاسی کی جو پہلے سائیکولوجسٹ کے سامنے خود کو کمزور ظاہر کرنے سے ڈر رہا ہوتا ہے، پھر اپنے جرم کو قبول کرتا ہے اور پھر جس طرح وہ آخر میں سائیکولوجسٹ سے یہ سننے کا خواہشمند ہوتا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک تھا اور اس نے کچھ غلط نہیں کیا، یہ سب دیکھنا مختلف مراحل سے گزرنے جیسا تھا لیکن اس سیریز کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تمام 4 اقساط ون شاٹ ہیں۔

ون شاٹ میں کیمرا ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاتا ہے اور کوئی دوسرا ٹیک نہیں لیا جاتا۔ سنگل شاٹ کی وجہ سے لگتا ہے کہ ناظرین اس سین میں اداکاروں کے ساتھ موجود ہیں۔ سنگل شاٹ میں اتنی جاندار ایکٹنگ کے مظاہرے نے اووین کوپر کو ایک اسٹار بنا دیا ہے جبکہ یہ سیریز ان کا ایکٹنگ ڈیبیو ہے۔ اگر آپ والدین نہیں ہیں تب بھی آپ یہ سیریز اووین کوپر کی ایکٹنگ کی وجہ سے دیکھیے جو اب یقیناً ایمی ایوارڈ جیتنے کے حقدار ہیں۔

اس کے علاوہ جیمی کے والد کا کردار ادا کرنے والے اسٹیفن گراہم (جوکہ ایڈولیسنس کے شریک پروڈیوسر اور رائٹر بھی ہیں) نے بھی مجھے اپنا مداح بنایا۔ ایک بے بس باپ جسے لگتا ہے کہ اس کا بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے محفوظ ہے، غلط ثابت ہونے پر کس حد تک لاچار محسوس کرتا ہے اسٹیفن گراہم نے اس جذبات کی بھرپور عکاسی کی ہے۔

حرفِ آخر

والدین کو گمان ہوتا ہے کہ بچہ ان کی چھت تلے ان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے تو وہ ان کی حفاظت کے زیرِ سایہ ہے لیکن آج کے دور کے والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے بچوں اور ان کے درمیان ایک نہیں بلکہ کئی جنریشنز کا گیپ آچکا ہے، ایک خلا ہے جسے پُر کرنا بہت مشکل ہے اور اسے پُر کرنے کے لیے انتہائی محتاط ہونے کی ضرورت ہے اور جدید دنیا سے ہم آہنگ ہونا لازمی ہے تاکہ بچوں کو زیادہ قریب سے جان پائیں۔

یہ سیریز ایک ویک اپ کال ہے۔ پرینٹنگ کس حد تک مشکل ہوچکی ہے، یہ بتاتی ہے کہ ماں باپ کو بچوں کو آن لائن دنیا کے قہر سے دور رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ والدین جب اسی عمر کے ہوتے تھے تو وہ جب اپنے کمروں میں بند ہوتے تھے تب وہ صرف ڈرائنگ یا دیگر کھیلوں میں مصروف ہوتے تھے۔ انہیں آج کے بچوں کی طرح انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا کی ہر معلومات تک رسائی حاصل نہیں تھی، تو والدین کے لیے خود کو اپنے بچوں کی جگہ رکھ کر سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اسکرین ٹائم کم کرنے، کمرے میں بند بچوں کو فیملی کے ساتھ اینگیج کرنے کی ضرورت ہے، بچوں کے پاس موجود گیجٹس کو مخصوص اوقات میں ان تک رسائی دینا ہوگی اور بچوں کو کم عمری سے ہی پُراعتماد بنانے کے لیے زندگی کے ہر پہلوؤں سے متعلق ان سے بات کرنا ہوگی کیونکہ آج کے دور کے بچے وقت سے پہلے بڑے ہورہے ہیں اور والدین کو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔

بچہ کس طرح آن لائن تنازعات سے متاثر ہوسکتا ہے اس کا مظاہرہ بھی اس سیریز میں ہوا کہ جہاں اینڈریو ٹیٹ کی ٹاکسک مردانگی کے تصور نے جیمی اور اس کے اسکول کے دوستوں کو متاثر کیا تھا۔ پاکستان کی ہی مثال لے لیں کہ جہاں اگر جین زی کا کوئی بچہ اپنے والدین کے سامنے سلینگز کا استعمال کرے گا تو والدین کیا، ملینیئل کے نوجوان بھی اسے سمجھ نہیں پائیں گے جبکہ جین زی کے بچے اسی زبان میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔

نیٹ فلیکس پر دستیاب سیریز ایڈولیسنس پاکستان سمیت متعدد ممالک میں ٹرینڈنگ پر ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کے لیے کتنا ضروری ہے کہ وہ روزمرہ کے مواد سے ہٹ کر ایسے مواد کو دیکھیں جو انہیں اپنے بچوں کے قریب لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

والدین اور بچے آج کل ایک الگ دنیا کے باسی ہیں اور بچوں کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے والدین کو ان کی دنیا سے ہم آہنگ ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

خولہ اعجاز

خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 30 مارچ 2025
کارٹون : 29 مارچ 2025