’ملک پر پنجاب کے سیاسی اور معاشی تسلط نے قوم کے اتحاد کو کمزور کیا ہے‘
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک ’شکاری ریاست‘ میں تبدیل ہوچکا ہے، وہ اصطلاح جسے ماہر اقتصادیات جیمز کے گیلبریتھ نے استعمال کیا تھا۔
وہ شکاری ریاست کو ایک ایسے نظام کے طور پر بیان کرتے ہیں جہاں طاقتور لوگوں کا ایک چھوٹا گروہ (اشرافیہ) ملک کی پالیسیز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ آبادی کی اکثریت اس کے نتائج بھگتتی ہے’۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر پاکستان کو مسائل کا سامنا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مسائل ریاستی ناکامی کی علامت ہیں۔
تاہم آرمی چیف چاہتے ہیں کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی مخالفین سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک ’سخت ریاست‘ بنایا جائے۔ وہ ملک میں حکمرانی کی بگڑتی ہوئی حالت پر ناخوش ہیں۔ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں سیاسی قیادت سے سوال کیا، ’آخر کب تک ہم پاک فوج کی قربانیوں اور شہدا کے خون سے بری گورننس کا خلا پُر کرتے رہیں گے؟‘
ان کے خدشات شاید درست بھی ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم اس نہج تک آخر پہنچے کیسے ہیں کہ جہاں دو اسٹریٹجک اہمیت کے حامل صوبے شورشوں کی لپیٹ میں ہیں اور یہ ہمارے ملک کا ایک وجودی خطرہ بن چکا ہے؟
ملک کو ’سخت ریاست‘ میں تبدیل کرنے کا کیا مطلب ہے اور اس سے قومی سلامتی کو مضبوط کرنے میں بھلا کس طرح مدد ملے گی؟ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ طاقت کا استعمال ملک میں امن کو یقینی بنائے گا۔ ہم بلوچستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے عملی مظاہرہ دیکھتے آئے ہیں جس نے صورت حال کو مزید خراب ہی کیا ہے۔ عسکریت پسندوں کی کارروائیاں جنگل کی آگ کی طرح تیزی سے پھیل چکی ہیں جبکہ ریاستی جبر اور طاقت کے استعمال سے اب اس آگ کو بجھانا انتہائی مشکل ثابت ہوگا۔
جب آبادی میں شدید بیگانگی کا احساس پنپ رہا ہو تو ایسے میں دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ صوبے بھر میں وسیع کریک ڈاؤن اور رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ہڑتال کی کال کے بعد بلوچستان کے بڑے حصوں میں نظامِ زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے ریاست ایسے سفاکانہ اقدامات کا سہارا لے رہی ہے جن سے عوام کی بےچینی میں مزید اضافہ ہوگا۔
ریاستی جبر کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی اضطراب کو امن و امان کا معاملہ قرار دینا، سیاسی ذمہ داری سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔ یقیناً طاقت کے استعمال سے امن لانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اگر آبادی میں شدید عدم اعتماد کی وجوہات پر توجہ نہیں دی جائے گی تو یہ تشدد مزید سنگین صورت اختیار کرسکتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے شدید ریاستی جبر کا سہارا لینے کی ضرورت پیش آئے گی۔ درحقیقت قوم بے حس اور جابرانہ پالیسیز کی قیمت برسوں سے شہدا کے خون سے ادا کر رہی ہے۔
بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ تو بنیادی عوامی حقوق سے انکار کا نتیجہ ہے۔ رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بنیادی شہری آزادی اور انسانی حقوق کو دبانے کی وجہ سے عسکریت پسندی کے بڑھتے واقعات کی لپیٹ میں ہے۔ ریاستی مشینری کا بار بار استعمال اتھارٹی نہیں بلکہ کمزور حکمرانی کی علامت ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مزید جابرانہ ہتھکنڈے اپنانے سے بلوچستان میں حالات سنبھل نہیں رہے بلکہ بدستور خراب ہوتے چلے جارہے ہیں۔
ایک حکومت صرف اسی صورت میں اپنے لوگوں کی وفاداری حاصل کرسکتی ہے کہ جب آبادی کی اکثریت حکومت کو ان کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہوئے دیکھے۔ جب کوئی حکومت سخت اور کنٹرولنگ ہوجاتی ہے تو وہ عوام میں اعتماد اور ساکھ کھو دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کے پاس لوگوں کو قابو کرنے کے لیے مضبوط قوتیں موجود ہوں تب بھی ریاست کمزور ہی کہلاتی ہے۔
جمہوری حقوق کے طالب لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے طاقت کا استعمال اور غیرمنصفانہ سلوک اندرونی مسائل اور اندرونی دشمنی کو جنم دیتا ہے۔ اس سے ملک کی کمزوریوں میں اضافہ ہوتا ہے اور بیرونی قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ ایک شکاری ریاست یہ توقع نہیں رکھ سکتی کہ اس کے عوام اس کا ہر معاملے میں ساتھ دیں گے۔
جب کوئی ریاست اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا سہارا لیتی ہے تو درحقیقت یہ ریاست کی کمزوری اور عدم تحفظ کی نشانی ہے۔ ایک غیرمحفوظ ریاست ہر شہری کو ممکنہ حریف کے طور پر دیکھتی ہے جو بیرونی دشمنوں کے ساتھ سازش کر رہا ہوتا ہے۔ اپنے ہی شہریوں سے خوفزدہ اور مشینری سے لیس ریاست اپنی بقا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ ایک شکاری ریاست میں تبدیل ہوجاتی ہے جو نہ تو قانون کی حکمرانی سے متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی مضبوط اور خودمختار اداروں کے ذریعے سخت احتساب کے عمل سے گزرتی ہے۔
حکومت لوگوں کے بنیادی حقوق چھیننے سے مضبوط نہیں ہوتی بلکہ کھلے عام تنقید کرنے اور عوام کے احتساب سے مضبوط ہوتی ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ ایک ایسی حکومت ہے جو کسی کو اپنے اقدم کی جوابدہ نہیں ہے۔ یہ اپنے ہی شہریوں کا اعتماد کھو چکی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے بہت سے مسائل حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری سے پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک کمزور ریاست ہے جس کا نظام تقریباً ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
موجودہ حکومت جس پر سیکیورٹی فورسز کا کنٹرول ہے ملکی اداروں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے ان کی آزادی چھین لی گئی ہے اور اب ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ فوج کے زیرِاثر انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکومت اپنی قانونی ساکھ کھو چکی ہے۔ عملی طور پر دو صوبوں کو عسکریت پسندی نے اپنے محاصرے میں لیا ہوا ہے جس سے ایک متحد قوم کی حیثیت سے ملک کا مستقبل خطرے میں ہے۔
سندھ میں بھی عوام کے بڑھتے عدم اطمینان کی وجہ سے بھی صورت حال مزید خطرناک رخ اختیار کرچکی ہے۔ اس کی وجہ پنجاب کی بنجر زمین کو پانی دینے کے لیے چھ کینال بنانے کا حکومتی فیصلہ ہے جس میں مشاورت کے عمل میں کسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ ملک پر پنجاب کے سیاسی اور معاشی تسلط نے قومی اتحاد کو کمزور کیا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہمیں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث بیرونی قوتوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے لیکن اس مداخلت کی بڑی وجہ حکومت کی اپنی ناکامی ہے۔ جب سرحد پار سے دہشتگردی ہو تو فوج کی جوابی کارروائی کا مطالبہ کرنا اس وقت تک فائدہ مند نہیں ہوگا جب تک ہم اپنے اندرونی معاملات حل نہیں کرلیتے۔ اگر حکومت اپنے عوام کے تحفظات اور ضروریات کو پورا نہیں کر پاتی تو دیگر ممالک کے خلاف کسی بھی طرح کی فوجی کارروائی پاکستان کو مضبوط نہیں بنائے گی۔
’سخت ریاست‘ وہ ہوتی ہے جو پالیسیز کو مؤثر طریقے سے نافذ کرتی ہے، کنٹرول مضبوط رکھتی ہے اور ملکی مفادات پر توجہ دیتی ہے۔ لیکن کیا ہمارے پاس طاقت کے استعمال کے علاوہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کا کوئی واضح منصوبہ موجود ہے؟
ایک شکاری ریاست لوگوں کی نمائندگی کی پروا نہیں کرتی ہے۔ بلوچستان میں ہم جس طرح معاملات کو سنبھال رہے ہیں، اس سے نوآبادیاتی رویے جھلکتے ہیں جہاں عوام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ روش بدلنے اور قومی اتحاد کو بچانے کے لیے وقت انتہائی کم رہ گیا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔