عید کے حوالے سے چند ضروری ’معلومات‘
اگرچہ یہ نہایت غیرضروری ہے مگر پھر بھی ہماری خواہش ہے کہ ہم آپ کو عیدالفطر کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کریں۔ عید پوری امت مسلمہ مناتی ہے لیکن ہم پاکستانی خاص ’ہیں‘ ترکیب میں، اس لیے دو دو عیدیں بھی منا لیتے ہیں۔
دراصل دو کا ہندسہ ہماری تاریخ کا حصہ اور قسمت میں لکھا ہے۔ اس ہندسے سے ہمارا تعلق دو قومی نظریے سے شروع ہوا، پھر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی صورت میں دو پاکستان وجود میں آئے جس کے بعد دو قومی زبانیں اردو اور بنگلہ اپنائی گئیں، آخر ملک دو لخت ہوگیا اور یوں دو ’پاکستانوں‘ کو بڑی مشکل اور محنت سے ہم نے ایک کرلیا۔
مگر پھر بھی دو کے ہندسے سے جان نہ چھوٹی۔ جن اچھے دنوں کی امید تھی ان میں سے دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں۔۔۔ انتہا تو یہ ہے کہ ہم جمہوریت اور آمریت کے بارے میں بھی دو دل ہونے کی کیفیت میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون ہمارے ساتھ زیادہ برا کرتی ہے۔ کبھی ہمیں ’دو منہ کے‘ سیاست دانوں نے ڈسا تو کبھی صدر اور سالار کی دوہری ذمہ داریاں سنبھالنے والوں نے کاٹ کھایا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ دو نمبری ہماری معیشت، سیاست اور صحافت سمیت ہر شعبے کا خاصا ہے اور ہمارے قومی نعرے ’حقوق دو‘، ’جواب دو‘، ’حساب دو‘ بن چکے ہیں۔ ایسے میں دو عیدوں پر حیرت کیسی، بلکہ ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ چپڑیاں اور وہ بھی دو دو۔
عید چاند دیکھ کر منائی جاتی ہے۔ کبھی لوگ خود عید کا چاند دیکھتے تھے اور اس بہانے اردگرد چھتوں پر اپنے اپنے طے شدہ اور مطلوبہ چاند بھی دیکھ لیتے تھے لیکن برسوں سے یہ فریضہ رویت ہلال کمیٹی نبھا رہی ہے۔ اس کمیٹی کی برکت سے ہمیں یہ گراں قدر اور ناگزیر آگاہی میسر آجاتی ہے کہ کس کس مولانا نے ہماری خاطر چاند دیکھنے کے لیے وقت لگا کر، کشٹ اٹھا کر، فلک بوس عمارت کی چھت پر جا کر، دوربین میں آنکھ جماکر آسمان پر چاند تلاش کیا اور پھر یہ علما کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے جس میں طے پایا کہ چاند نہیں ہوا۔
یوں ہم کمیٹیاں ڈال کر بڑے آرام سے عید کی تیاری کرلینے والے کم ازکم دقتیں اٹھا کر چاند ڈھونڈنے والے رویت ہلال کمیٹی کے شرکا کے ناموں سے واقف ہوجاتے ہیں تو یہ بھی کیا کم ہے!

’ڈھونڈنے‘ کے لفظ سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ چاند لاپتا ہوتا ہے۔ ویسے یہ ہو بھی سکتا تھا اگر چاند آفاقی ہونے کے بجائے مقامی ہوتا تو ممکن تھا کسی حقیقت پر روشنی ڈالنے کی خطا پر غائب کردیا جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہزار کمیٹیاں بھی بنالی جاتیں رویت ہلال نہ ہوپاتی۔
ہماری سادگی دیکھیے کہ ہم برسوں یہ سوچتے رہے کہ چاند تلاش کرنے کے لیے بےچارے علما کو کیوں زحمت دی جاتی ہے، یہ کام تو پولیس کا ہے! خیرگزری کہ حکمران ہماری طرح سادہ مزاج نہیں، ورنہ اگر عید کا چاند تلاش کرنے کی ذمہ داری پولیس کو دے دی جاتی تو پولیس حکام اعلان کرتے ’چاند برآمد کرلیا گیا‘، پھر بہ طور ثبوت آسمان کا منظر دکھاتے جہاں کوئی ڈرا سہما ستارہ یا سیارہ خود کو ہلال بنانے کی کوشش میں کمر خم کیے ہوئے کہہ رہا ہوتا، ’ائی تاااا۔۔۔ میں عید کا چاند ہوں قسم سے‘۔
سِویاں عید کا خاص پکوان ہے۔ سِویاں سیدھے سیدھے، لمبے لمبے تنکوں کی صورت میں بنائی جاتی ہیں۔ اگر یہ ٹھیک اسی شکل میں پکائی جائیں تو انہیں کھانے والے کے لیے اپنی شکل برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ انہیں منہ میں سنبھالنا کئی جماعتوں پر مشتمل حکومت سنبھالنے سے زیادہ دوبھر ہے۔ انہیں ایسے ہی محتاط ہوکر، سنبھل سنبھل کر، بچ بچ کر کھانا پڑتا ہے جیسے ہمارے ہاں بہت سے خوفِ خدا رکھنے والے حیلوں بہانوں سے سود اور حرام کھاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ تار سی لٹکتی سویاں کھانے کی مشقت اٹھا کر ہی ہماری قوم میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ پورے کے پورے ادارے اور اربوں کھربوں روپے سالم نگل لیے جاتے ہیں۔
خیر منائیے کہ ٹیڑھی کھیر سی یہ سیدھی سویاں ہماری سلیقہ مند خواتین کے ہتھے چڑھ گئیں جنہوں نے ان کا ’سیدھاپن‘ ختم کرکے مختلف ترکیبوں میں ڈھال کر انہیں مزے لے لے کر اور آسانی سے کھانے کے قابل بنادیا۔ پس تو ثابت ہوا کہ اللّہ کی بندی کی سلیقہ مندی سیدھی سِویوں کو جو چاہے بناسکتی اور جلیبی جیسے شوہروں کو سِوَئیں کی طرح سیدھا کرسکتی ہے۔ اس کے بعد شوہر کا بھی جو چاہے بنادے۔
مغربی ممالک کے تاجر کرسمس پر ہر چیز کئی کئی گنا سستی کردیتے ہیں، کردیتے ہوں گے لیکن ہم سے علامہ اقبال کہہ گئے ہیں، ’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر‘، چنانچہ اپنے ہاں عید پر اشیا دگنے چوگنے داموں بکتی دیکھ کر ہم اس قسم کا کوئی قیاس یا موازنہ نہیں کرتے بلکہ ہم تو سوچتے ہیں کہ منافع کے موقع پر ایسی سخاوت کا چلن ان مغربیوں کی تجارت و صنعت کو تباہ کرکے رہے گا۔

شاعر مشرق نے یہی تو کہا تھا، ’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘، عقل مندی تو یہ تھی کہ تہواروں پر جم کر کمائی کی جاتی، پھر مستحقین کے لیے سڑکوں پر دسترخوان سجا دیے جاتے، پہلے شتربے مہار بن کر منافع کمایا جاتا پھر غریبوں کو شترمرغ کھلاکر ثواب کمایا جاتا لیکن دانش افرنگ، طب مشرق کے ان معجونوں کو کیا سمجھ پائے گی۔
ہمارے تاجر مغرب کی پیروی سے متنفر ہیں۔ مغربی ممالک جاتے بھی ہیں تو بس یہ دیکھنے کے لیے کہ وہاں کے اہل تجارت جو کر رہے ہیں وہ دیکھیں تاکہ طے ہوجائے کہ ’بھائی میا! یہ ہرگز نہیں کرنا‘۔ پاکستانی تاجر عیدین اور رمضان کے مقدس مواقع پر قیمتیں گھٹانے کو للچانے کا شیطانی حربہ سمجھتے ہیں، اس لیے نرخوں میں اضافے کے ذریعے خریداروں کی لالچ گھٹاتے اور اپنا بینک بیلنس بڑھاتے ہیں۔
عید کا ایک لازمہ عیدی ہے۔ یہ عیدی دینے کی رسم ہی ہے جس کے باعث بے خبر سے بے خبر اور بھلکڑ سے بھلکڑ حضرات کو بھی یکایک عید کے دن یاد آجاتا ہے کہ خاندان میں کس کے کتنے بچے ہیں۔ اس وقت وہی رشتے دار اچھے لگتے ہیں جنہوں نے بچے دو ہی اچھے کے نعرے پر عمل کیا ہوتا ہے۔ جن عزیزوں کے ہاں ’زچگیاں ہوتی رہیں‘ اور قافلہ بنتا گیا کا معاملہ ہو، عید پر ان کے آنے کا سن کر طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے اور ان کے گھر جاتے ہوئے پاؤں من من بھر کے ہوجاتے ہیں۔

جیب دونوں صورتوں میں ہلکی ہوتی ہے۔ رہے ایک دو بچوں کے والدین تو وہ اس موقع پر چھ، چھ، آٹھ، آٹھ بچوں والے گھروں میں عیدیاں بانٹنے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں اور دل ہی دل میں کہہ رہے ہوتے ہیں ’اگر دو اور بڑھ جاتے تو بگڑتا کیا زمانے کا‘ پھر ’حسبِ حالات‘ فیصلہ ہوتا ہے کہ کم ازکم ایک ’جنم‘ اور مری جاں، ابھی جاں باقی ہے۔
اس سب گہماگہمی اور ساری سرگرمیوں کے درمیان عید کے تین دن گزر جاتے ہیں اور یہ تہوار بچوں کے چہروں کی دمک، بیٹیوں کی سج دھج، بزرگوں کی شفقت سے مہکتی دعاؤں، بیویوں کی دل آویز مسکراہٹ اور چوڑیوں کی کھنک کے ساتھ مبارک باد، اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے اور پکوانوں کی خوشبو میں ڈھل کر ہمیں مسرت اور راحت کے ڈھیروں لمحات دے جاتا ہے۔ آپ سب کو یہ حسین لمحات اور عید مبارک!
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔