افغانستان: ایک ہی دن میں مختلف جرائم میں ملوث 4 افراد کو سر عام پھانسی
افغانستان میں جمعہ کے روز 4 افراد کو سرعام پھانسی دے دی گئی، جو 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ایک دن میں سزائے موت دی جانے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 3 صوبوں میں کھیل کے میدانوں میں 2021 کے بعد سے سرعام سزائے موت پانے والے مردوں کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔
1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت کے دوران سرعام پھانسی دینا عام بات تھی، جن میں سے زیادہ تر کھیلوں کے اسٹیڈیم میں سرعام دی جاتی رہی ہیں۔
صوبہ بادغیس کے مرکز قلعہ نو میں شہریوں کی موجودگی مین متاثرین کے ایک رشتہ دار نے 2 افراد کو 6 سے 7 گولیاں ماریں۔
ایک 48 سالہ شہری محمد اقبال رحیم یار نے بتایا کہ ’انہیں بٹھایا گیا اور ہماری طرف منہ موڑا گیا، متاثرہ خاندانوں کے رشتہ دار پیچھے کھڑے تھے اور انہوں نے بندوق سے ان پر گولی چلائی۔‘
سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں سزائے موت پانے والے افراد کو دیگر افراد کو گولی مارنے کے جرم میں ’جوابی سزا‘ سنائی گئی ہے، جب کہ ان کے مقدمات کا ’بہت درست اور بار بار جائزہ‘ لیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ متاثرین کے اہل خانہ نے معافی دینے سے انکار کر دیا تھا۔
35 سالہ ذبیح اللہ نے اسٹیڈیم کے باہر کہا کہ اگر متاثرہ کے اہل خانہ نے ملزمان کو معاف کر دیا ہوتا تو یہ بہتر ہوتا ورنہ یہ خدا کا حکم ہے، اور اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
جمعرات کے روز بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے سرکاری نوٹس میں افغانوں کو ’تقریب میں شرکت‘ کی دعوت دی گئی تھی۔
تیسرے شخص کو صوبہ نمروز کے شہر زرنج میں پھانسی دی گئی اور چوتھے شخص کو فرح شہر میں پھانسی دی گئی۔
جاوید نامی 30 سالہ شہری نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ امارت اسلامیہ اپنی سیاست اور طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے، میں ان سے بہت خوش ہوں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ سرعام سزائے موت پر عمل درآمد روک دیں، جسے انسانی وقار کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
آنکھ کے بدلے آنکھ
افغانستان میں اس سے قبل آخری سزائے موت نومبر میں دی گئی تھی، جب مشرقی پکتیا صوبے کے دارالحکومت گردیز کے اسٹیڈیم میں طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت ہزاروں تماشائیوں کے سامنے ایک سزا یافتہ قاتل کو متاثرہ خاندان کے ایک رکن نے سینے میں تین گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
طالبان حکام کے دور میں جسمانی سزا، بنیادی طور پر کوڑے مارنا عام ہے، اسے چوری اور شراب نوشی سمیت جرائم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم سزائے موت کے تمام احکامات پر طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے دستخط ہیں، جو تحریک کے مرکز قندھار میں رہتے ہیں۔
اخوندزادہ نے 2022 میں ججز کو حکم دیا تھا کہ وہ طالبان حکومت کی جانب سے اسلامی قانون کی تشریح کے تمام پہلوؤں پر مکمل عمل درآمد کریں، جس میں قصاص کے نام سے جانی جانے والی سزائیں بھی شامل ہیں، جس میں قتل کے جرم کی سزا کے طور پر سزائے موت کی اجازت دی گئی ہے۔
امن و امان طالبان کے شدید نظریے کا مرکز ہے جو 1989 میں افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کی افراتفری سے ابھرا تھا۔
ان کے پہلے دور حکومت کی سب سے بدنام تصاویر میں سے ایک میں 1999 میں کابل اسٹیڈیم میں برقع پہنے ایک خاتون کو پھانسی دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
اس پر اپنے شوہر کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔
اقوام متحدہ اور ایمنسٹی جیسے انسانی حقوق کے گروپوں نے طالبان حکومت کی جانب سے جسمانی سزا اور سزائے موت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رواں ماہ شائع ہونے والی سزائے موت سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افغانستان کو ان ممالک میں شامل کیا ہے جہاں بین الاقوامی منصفانہ ٹرائل کے معیار پر پورا نہ اترنے والی کارروائیوں کے بعد سزائے موت دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران، عراق اور سعودی عرب گزشتہ برس ایک ہزار 518 افراد کو سزائے موت دینے کے ذمہ دار تھے، جب کہ ان تینوں ممالک میں سزائے موت میں اضافے سے عالمی سطح پر اموات میں اضافہ ہوا ہے۔