• KHI: Maghrib 7:00pm Isha 8:22pm
  • LHR: Maghrib 6:40pm Isha 8:08pm
  • ISB: Maghrib 6:49pm Isha 8:20pm
  • KHI: Maghrib 7:00pm Isha 8:22pm
  • LHR: Maghrib 6:40pm Isha 8:08pm
  • ISB: Maghrib 6:49pm Isha 8:20pm

امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو فلسطینی طالبعلم محمود خلیل کو امریکا بدر کرنے کی اجازت دیدی

شائع April 12, 2025
امریکی وزیر خارجہ کے خط میں محمود خلیل پر یہود مخالف ہونے کے علاوہ قانون توڑنے کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا — فوٹو: رائٹرز
امریکی وزیر خارجہ کے خط میں محمود خلیل پر یہود مخالف ہونے کے علاوہ قانون توڑنے کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا — فوٹو: رائٹرز

امریکی ریاست لوزیانا میں امیگریشن جج نے فیصلہ سنایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ طالب علم اور فلسطینی کارکن محمود خلیل کے خلاف ملک بدری کے مقدمے کو آگے بڑھا سکتی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ لوزیانا کے دیہی علاقے میں نجی سرکاری ٹھیکیداروں کی جانب سے چلائی جانے والی خاردار تاروں سے گھری تارکین وطن کی جیل کے احاطے میں واقع لاسیل امیگریشن کورٹ کے جج جیمی کومنز نے دیا۔

کولمبیا کے نیو یارک سٹی کیمپس میں فلسطینیوں کی حمایت میں چلنے والی احتجاجی تحریک میں نمایاں شخصیت محمود خلیل، شام میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے، وہ الجزائر کی شہریت رکھتے ہیں اور گزشتہ سال امریکا کے قانونی طور پر مستقل رہائشی بن گئے تھے، محمود خلیل کی اہلیہ نور عبداللہ امریکی شہری ہیں۔

سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے 1952 کے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ ماہ فیصلہ کیا تھا کہ محمود خلیل کو امریکا سے نکالنا چاہیے، کیونکہ امریکا میں ان کی موجودگی سے خارجہ پالیسی پر ’ممکنہ طور پر سنگین منفی اثرات‘ مرتب ہوں گے۔

محمود خلیل اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ انہیں ایسی تقریر کی وجہ سے نشانہ بنا رہی ہے جو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت محفوظ ہے، جس میں امریکی خارجہ پالیسی پر تنقید کرنے کا حق بھی شامل ہے۔

ان کا کیس ریپبلکن صدر کی جانب سے غیر ملکی فلسطینی حامی طلبہ کو ملک بدر کرنے کی کوششوں کا ایک ہائی پروفائل امتحان ہے جو قانونی طور پر امریکا میں موجود ہیں، اور محمود خلیل کی طرح ان پر بھی کسی جرم کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ محمود خلیل اور دیگر بین الاقوامی طلبہ جو اس طرح کے مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں، وہ امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

30 سالہ محمود خلیل نے خود کو سیاسی قیدی قرار دیا ہے، انہیں 8 مارچ کو کولمبیا یونیورسٹی کے اپارٹمنٹ کی عمارت سے گرفتار کیا گیا تھا اور لوزیانا کی جیل میں منتقل کردیا گیا تھا۔

ان کے وکلا نے کہا ہے کہ انہیں جج کے حکم پر انتظامیہ کی طرف سے بدھ کو پیش کیے گئے ثبوتوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔

عدالت اور محمود خلیل کے وکلا کو جمع کرائے گئے 2 صفحات پر مشتمل خط میں مارکو روبیو نے لکھا کہ محمود خلیل کو یہود مخالف مظاہروں اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے نکالا جانا چاہیے، جس سے امریکا میں یہودی طلبہ کے لیے معاندانہ ماحول پیدا ہوتا ہے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ کے خط میں محمود خلیل پر کوئی قانون توڑنے کا الزام نہیں لگایا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 28 اپریل 2025
کارٹون : 27 اپریل 2025