• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

کیا نواز شریف بلوچستان میں قیام امن کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں؟

شائع April 14, 2025

بلوچستان جل رہا ہے، ایک جانب دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے جن کا ہدف ریاست اور غیر بلوچ ہیں تو دوسری جانب صوبے بھر میں انصاف اور سیاسی و معاشی حقوق کے لیے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں اب وہ صورتحال جنم لے رہی ہے جہاں اہم شاہراہوں پر رات کے وقت سفر بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔

اس پس منظر میں نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی لاہور میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی پُرتعیش رہائش گاہ پر ان سے ملاقات خوش آئند پیش رفت تھی۔ یہ ملاقات دراصل اُمید کی علامت تھی۔

یقیناً تبدیلی کی امید کا تعلق مرکز میں (بلوچستان) کے مسئلے کو جیسے سمجھا اور اس سے نمٹا جا رہا ہے پر منحصر ہے۔ اب تک وہ نتائج حاصل ہوئے ہیں جنہیں تباہ کُن ہی قرار دیا جاسکتا ہے، جبکہ ریاستی مشینری اور عسکریت پسند نہ ختم ہونے و الے تشدد کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یقیناً یہ پوچھا جانا چاہیے کہ تبدیلی کی یہ امید بے جا تو نہیں ہے۔

ماضی میں نواز شریف اس سیاسی مفاہمت کا مظاہرہ کرچکے ہیں جس سے امید پیدا ہوسکتی ہے۔ ملاقات کے بعد لی گئی ایک تصویر میں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک پُرتکلف انداز سے سجے کمرے میں اس طرح بیٹھے ہوئے نظر آرہے تھے جسےقبول کرنے میں 99 فیصد سے زیادہ پاکستانیوں کو مشکل پیش آئی ہوگی۔

ایک متمول اور ایک پسماندہ اور تباہ حال صوبے کے مسائل کے درمیان اس ظاہری تضاد کے باوجود اگر کوئی یہ امید رکھے کہ عظیم جمہوریت پسند، نواز شریف اس سنگین ترین مسئلے پر فوری توجہ دیں گے، تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی کہ کیونکہ اس سلسلے میں وقت بہت اہمیت کا حامل ہے، جیسا کہ ڈان اخبار نے اپنے جمعے کے اداریے میں فصیح اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔

کوئی بھی یہ تجویز نہیں کررہا کہ نواز شریف کو فوری بلوچستان جانے کی ضرورت تھی، کیونکہ وہ اگر کچھ کر سکتے تو اس سلسلے میں پیشرفت سے پہلے کچھ تیاری تو کرنی پڑتی۔ لہٰذا شریف خاندان کے منسک کے دورے کی تصاویر دیکھ کر مجھے جو حیرت ہوئی اس کا آپ تصور کرسکتے ہیں۔

بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے جس پاکستانی وفد کا استقبال کیا اس میں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور ان کی صاحبزادی، حسین نواز اور اسحٰق ڈار کے چہرے با آسانی شناخت کیے جاسکتے تھے جبکہ شریف خاندان کے کچھ دیگر کم معروف چہروں کو بھی پہچانا جاسکتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں کابینہ کے اراکین، سفارتکار، سرکاری ملازمین سمیت اور بھی افراد تھے، کیونکہ آخرکار یہ ایک سرکاری وفد تھا۔

تاہم یہ وفد جس میں خاندان کے اراکین کی اکثریت تھی، قدرے پریشان کُن تھا۔ ہاں مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط ہوئے قطع نظر اس کے کہ کب یہ حقیقت میں ڈھلیں گے اور کب ان کا نتیجہ سمجھوتوں اور معاہدوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مختلف اقسام کے جن کاغذات پر دستخط کیے گئے، ان میں سے بیشتر پاکستان کے لیے فوائد کے حصول کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ بھی واضح نظر آرہا تھا کہ فوجی قیادت کی یقینی حمایت کے ساتھ شریف خاندان کو نتائج و عواقب اور عوامی تصورات کی مطلق پروا نہیں۔ وفد میں خاندان کے چھ قریبی افراد کی موجودگی کی وجہ سے اس دورے پر فیملی وزٹ کا گمان ہورہا تھا مگر بہتر یہ تھا کا اس سے گریز کیا جاتا۔

اس دورے کا دفاع کرنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ نواز شریف اپنے سیاسی ورثا کو ملک میں بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں، اور یہ اعلیٰ عہدے کے لیے ان کی ریاستی حکمت علی کی تربیت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ تاہم اس دلیل میں بھی اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ عوام ان واقعات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

بات یہیں تک محدود نہیں ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ مرکز سے لے کر صوبوں تک سول و عسکری قیادت میں شامل وی وی آئی پیز، نے کفایت شعار نظر آنے کی کسی بھی کوشش کو واضح طور پر ترک کردیا ہے۔ اس کا اندازہ ان کے موٹر کیڈز کو دیکھنے سے ہی ہوجاتا ہے۔

سیکیورٹی سے متعلق حقیقی خدشات کی مناسبت سے کچھ اقدامات کو درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اندرون اور بیرون ملک ایگزیکٹو یا بڑے ( مخصوص ) جیٹ طیاروں میں سفر کو ترجیح دینےکی با مشکل ہی کوئی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے بالخصوص جبکہ تنخواہ دار طبقے پر مسلسل ٹیکسوں کا بھاری بوجھ ڈالا جارہا ہے۔

بہرحال اس بات کی ہمدردانہ وضاحتیں بھی موجود ہیں کہ حکومت میں اپنے سابق اتحادی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملاقات کے دوران بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کردار ادا کرنے پر رضامندی کے باوجود نواز شریف براستہ بیلاروس لندن کیوں چلے گئے۔

اسلام آبادکے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسئلے پرنواز شریف کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے اور وہ کوئی خاص کردار ادا نہیں کرسکتے تھے، ’‘ ’ ہارڈ اسٹیٹ ’ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عسکریت پسندی اور بغاوت سے ویسے ہی نمٹتے رہے گی جیسے وہ اس وقت طاقت سے نمٹ رہی ہے۔ پالیسی سازوں کا اندازہ ہے کہ جو نقصانات اس وقت اٹھائے جارہے ہیں وہ طویل مدت تک برداشت کیے جاسکتے ہیں۔’’

اس حکمت عملی کے کارآمد ثابت ہونے کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس ( حکمت عملی ) کے نتیجے میں جو قیمت ادا کی جارہی ہے وہ قابل برداشت ہوسکتی ہے کیونکہ معدنی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدن کی صورت میں جو فائدہ ہوگا وہ ناقابل تصور ہے ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ طویل مدت میں یہ فائدہ ارب ڈالر تک ہوسکتا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم ایک اور ذریعےکا کہنا ہے،’’بات چیت اور مذاکرات میں کسی کو بھی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں آمدن میں شراکت داری کرنی پڑسکتی ہے، اور یہاں کوئی بھی ’ سخاوت ’ کے موڈ میں نہیں ہے۔‘’

صوبوں کے معدنی وسائل میں ان کے حقوق کے بارے میں آئین جو کچھ کہتا ہے، اور مشترکہ مفادات کونسل کو جو آئینی کردار دیا گیا ہے، اسے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ’‘ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ 26 ویں ترمیم عمران خان سے مخصوص تھی۔ مگر اب انہیں سمجھ آئے گا کہ آئینی بینچ کی تشکیل اور اعلیٰ عدالتوں میں تقرریوں کوکنٹرول کرنے کا مقصد ایک ناپسندیدہ سیاستدان سے زیادہ وسیع مقاصد کے لیے تھا۔ ’‘

نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک سے یہ کہہ کر شاید اپنی فطری جبلت کی پیروی کی ہو کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی تصفیے کی جانب پیشرفت کی کوششوں میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر اپنے معزز مہمان کے جانے کے بعد شاید ان کی توجہ دوبارہ حقیقت پر مرکوز ہوگئی ہوگی۔ اور اسی کا ادراک کرتے ہوئے انہوں نے اپنا سفری پلان جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہوگا، کیونکہ وہ جانتے ہیں وہ کچھ زیادہ نہیں کرسکتے، ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔

اس کے باوجود، پاکستان کا درد رکھنے والے کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ بلوچوں کو ان کا چھینا ہوا مینڈیٹ لوٹانا ہی واحد قابل عمل طویل مدتی اقدام ہے۔ یہ مینڈیٹ ان پراکسیز کے حوالے کردیا گیا تھا جو صوبے میں اپنی سیاسی حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی حل کی مخالف ہیں۔

مجھے صرف یہ تشویش ہے کہ ہارڈ اسٹیٹ اور اس کے نرم رو خاندانی افراد کے غیر ملکی دوروں کے درمیان وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اگر کوئی فوجی حل ہوتا، تو میں شاید اس کی حمایت نہ کرتا، البتہ یہ ضرور کہتا کہ اگر یہ ممکن ہے تو ٹھیک ہے لیکن میں کیا کروں جب مجھے یقین ہے کہ اس ( فوجی حل ) کا مطلب خود کو نقصان پہنچانا ہے؟

اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 اپریل 2025
کارٹون : 20 اپریل 2025