• KHI: Asr 5:06pm Maghrib 7:02pm
  • LHR: Asr 4:45pm Maghrib 6:42pm
  • ISB: Asr 4:52pm Maghrib 6:51pm
  • KHI: Asr 5:06pm Maghrib 7:02pm
  • LHR: Asr 4:45pm Maghrib 6:42pm
  • ISB: Asr 4:52pm Maghrib 6:51pm

انٹرویو لینے والے کا انٹرویو

شائع April 16, 2025
انٹرویو  کا مقصد ہی یہی ہے کہ بولنے والی کی بات سنی جائے اور دنیا کو سنائی جائے۔ تصویر: اے آئی
انٹرویو کا مقصد ہی یہی ہے کہ بولنے والی کی بات سنی جائے اور دنیا کو سنائی جائے۔ تصویر: اے آئی

یہ تحریر اس خوش گمانی کے ساتھ لکھی جارہی ہے کہ ہر گلی میں کھلی پوڈ کاسٹ کی دکانوں میں انٹرویو کرنے والے شاید اسے پڑھ لیں۔ میز کے دونوں جانب دو مائیک اور دو کیمرے لگا کر انٹرویو کرلیا جاتا ہے، روزانہ تھوک کے حساب سے پوڈکاسٹ انٹرویو ریلیز ہوتے ہیں جن میں وہی پرانی راگنی وہی پرانے سوال اور وہی گھسے پٹے، ہزار بار سنے جواب۔

علی فرقان اسلام آباد کی سیاسی ہلچل کو لگ بھگ بیس برسوں سے رپورٹ کررہے ہیں۔ پاکستان کے مقامی میڈیا میں ان کی رپورٹ کبھی پارلیمان کی کارروائی اور کبھی سیاسی ملاقاتوں کے حوالے سے ہوتی تھیں پھر امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ منسلک ہوئے تو چیدہ چیدہ سیاستدانوں سے ایسے جاندار انٹرویوز کیے کہ ہر انٹرویو ایک بریکنگ نیوز بنا۔ ان انٹرویوز کو حال میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔ ”9 مئی سے 8 فروری تک“ کے عنوان سے مرتب یہ کتاب پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا جامع خلاصہ ہے۔ ظاہر ہے آج کے حالات ہمارے مستقبل کا پتا دے رہے ہیں ایسے میں یہ کتاب حسب حال ہے بلکہ ایک ضروری دستاویز ہے۔

یہ کتاب پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا جامع خلاصہ ہے
یہ کتاب پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا جامع خلاصہ ہے

لیکن سیاستدان تو آپ اتنے سیانے ہوتے ہیں۔ انہیں سوالوں کے شیشے میں اتارنا اتنا آسان تو نہیں کہ چار سوال پوچھے اور وہ دل کا حال کھول کر بیٹھ جائیں۔ علی فرقان کہتے ہیں ذرائع سے موصول خفیہ سرکاری دستاویز میں اگر دو جمع دو چار نہیں ملے تو خبر بنانی آسان ہے لیکن ون آن ون انٹرویو وہ بھی کسی سیاستدان کا، یہ ذرا تکنیکی کام ہے۔

میرے خیال میں تو سیاستدان، وکلا، اسٹیبلشمنٹ اور بیورکریسی کے لوگوں کی باتیں ابہام، راز و نیاز، استعارے، اشارے کنائے، حیلے بہانے، وضاحت، تاویل، دلیل، کچھ سچ اور کچھ گپ کا مجموعہ ہوتی ہے، میں نے اپنے کرئیر میں جتنےانٹرویوز کیے شدید کوفت ہوئی کیونکہ سیدھے سوال کا سیدھا جواب کوئی نہیں دیتا۔مگر علی فرقان اسے الگ نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے مطابق ٹیڑھے جواب ملنا عام سی بات ہے اسی لیے ہم بھی سوال زگ زیگ کی طرح کرتے ہیں۔ جیسے سیاستدان جواب گول کرجاتے ہیں ہم بھی سوال گول مول کرکے ہی بات نکلواتے ہیں۔ انٹرویو کا مقصد ہی یہی ہے کہ بولنے والی کی بات سنی جائے اور دنیا کو سنائی جائے۔

آج کل انٹرویو لینے والے صحافی اور پوڈ کاسٹرز اتنے لمبے لمبے سوال کرتے ہیں بلکہ سوال کیا پورا بھاشن دے رہے ہوتے ہیں۔ دو گز لمبی تمہید کے بعد سوال آتا ہے مگر تب تک شاید انٹرویو دینے والا سوچ بچار کرچکا ہوتا ہے اسی لیے آگے سے ایک ٹکا سا جواب آتا ہے“ جی اس حوالے سے میں فی الحال بات نہیں کرنا چاہتا۔ “

علی فرقان کہتے ہیں سوالات پورے انٹرویو کا مختصر ترین حصہ ہونا چاہیے۔ جتنا چھوٹا سوال ہوگا جواب اتنا ہی برجستہ بلکہ بغیر کسی لگی لپٹی کے ہوگا۔ مختصر سوالات کا یہ خاصا لاہور کے معروف صحافی سہیل وڑائچ کے یہاں بھی ملتا ہے۔مثلاً علی فرقان کہتے ہیں اگر آج انہیں نواز شریف سے ون آن ون انٹرویو کا موقع مل جائے تو پورے انٹرویو کا مقصد شاید یہ جاننا ہو کہ کیا میاں صاحب دوہزار بائیس میں ہونے والی چیف کی تقرری پہ آج بھی مطمئن ہیں۔

’ لیکن خاطر جمع رکھیں، میں یہ سوال ہرگز براہ راست نہیں پوچھوں گا۔ اس موضوع پہ میاں صاحب کچھ بولیں تو خبر، کچھ نا بولیں تب بھی خبر ہے۔’

پوڈ کاسٹ بھی کلاسک انٹرویو کی ڈیجیٹل شکل ہے، جس میں سوال جواب، تمہید اور اعتماد کا وہی پرانا سلسلہ ہے۔ لیکن پاکستان میں بننے والے اکثر پوڈ کاسٹ کسی سیاسی مہم یا کا حصہ لگتے ہیں۔ علی فرقان کا ماننا ہے کہ اپنے مہمان کو یقین دلانا ضروری ہے کہ آپ کا کوئی ایجنڈا نہیں۔لوگ دو چار سوالوں میں نیت اور انٹرویو کی نوعیت بھانپ جاتے ہیں ۔اسی لیے مخصوص نتائج کے حصول کے لیے کیے جانے والے انٹرویوز بغیر کسی خبریت کے جلد ہی ختم ہوجاتے ہیں۔

علی فرقان، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کا انٹرویو لے رہے ہیں۔
علی فرقان، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کا انٹرویو لے رہے ہیں۔

ٹی وی کے انٹرویوز میں سارا زور اس شور پہ ہوتا ہے جو دوران انٹرویو مچتا ہے، اور پوڈ کاسٹ میں لگتا ہے جیسے سرے سے کوئی ریسرچ ہے نا تیاری۔ علی فرقان بتارہے تھے وہ انٹرویوز کی پوسٹ پروڈکشن کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ کبھی کبھی دوران انٹرویو جو بات اہم نہ لگے وہی بات بعد میں ہیڈ لائن بننے کے قابل نکلتی ہے۔

اچھے سیاسی انٹرویوز لینے کے لیے علی فرقان کی ایک ماہرانہ رائے یہ بھی ہے کہ سیاسی اور ادارہ جاتی ترجمانوں سے دور رہیں۔ یہ صرف لکھے ہوئے موقف دے سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے کیفے، اور بڑے بنگلوں کے دیوان ِ خاص ایسے سیاسی افراد سے بھرے پڑے ہیں جو ایک کال پہ میڈیا والوں کی دسترس میں ہیں۔ لیکن یہ افراد چائے یا کافی کے ساتھ منہ کے ذائقے کے لیے تھوڑی سی سیاسی گپ لگانے کو اچھے ہیں۔ ملکی تقدیر کی لکیر میں کیا لکھا ہے اس کا انہیں بھی علم نہیں ہوتا۔

علی فرقان چونکہ پارلیمانی رپورٹرہے اس لیے انہیں علم ہے کہ سیاسی تقویم میں ستارے کس دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ میں نے خاصی دیر علی فرقان کو ٹٹولنے کی کوشش کی کہ کیا وہ بھی اپنے دیگر ہمعصروں کی طرح کسی ایک سیاسی جماعت کے منظور نظر تو نہیں۔ علی فرقان ہنس کر اپنے کرم فرماوں کے نام گنوانے لگے۔ پھر کہا ’’یہ ذاتی تعلق ہی تو ہے کہ ہم فرینڈلی فائر بھی کرتے ہیں اور کڑوے کسیلے سوال بھی، شکر کریں ہمارے سیاستدانوں میں ابھی اتنی وضع داری باقی ہے کہ وہ خود کو ہمارے سوالات کی کسوٹی کے لیے پیش کردیتے ہیں

عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی اسلام آباد کی نجی نیوز ایجنسی کی کاریسپانڈٹ ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کالم کار وابستہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: IffatHasanRizvi@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 1 مئی 2025
کارٹون : 30 اپریل 2025