Notice: Undefined index: 2024-5-1 in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 35

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 37

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 38

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 39

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 40

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 41

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 42

Notice: Undefined index: 2024-5-1 in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 35

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 37

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 38

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 39

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 40

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 41

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 42

Notice: Undefined index: 2024-5-1 in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 35

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 37

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 38

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 39

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 40

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 41

Notice: Trying to access array offset on value of type null in /var/www/beta.dawn.com/apps/dawnnews.tv/views/partials/menus/prayer-timings.php on line 42
  • KHI: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • LHR: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • ISB: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • KHI: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • LHR: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • ISB: Asr 5:00am Maghrib 5:00am

غصہ، مایوسی نفرت: کراچی میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے بڑھتے واقعات

قانون و انصاف کے نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنے، قانون کی حکمرانی اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔
شائع April 17, 2025 اپ ڈیٹ April 18, 2025

دو ہزار کی دہائی کے ہنگامہ خیز دور میں کراچی اور میں نے پہلی بار ہجوم کے ہاتھوں قتل دیکھا۔ اولڈ سٹی ایریا میں نشتر روڈ پر تین ’ڈاکو‘ ایک مشتعل ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے تھے جنہیں تشدد کا نشانہ بنا کر آگ لگا دی گئی۔

یہ واقعہ 14 مئی 2008 کو بدھ کو پیش آیا، جب چار افراد ایک اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے، قیمتی اشیا لوٹیں اور رہائشیوں پر فائرنگ کی۔ جب وہ فرار ہو رہے تھے تو گھر والوں نے شور مچایا، جس سے پڑوسیوں کو پتا چل گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے ان ڈاکوؤں کا پیچھا کیا اور کچھ دیر بعد انہیں ہجوم نے گھیر لیا۔

ہجوم کے ہاتھوں ایک مشتبہ شخص فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، باقی تین افراد کو ہجوم نے موقع پر موجود ہر چیز سے مارا ، ڈنڈے، لوہے کی سلاخیں، اینٹیں، لاتیں اور گھونسے۔ بعد میں انہیں مرکزی سڑک پر گھسیٹا گیا جہاں ان پر پیٹرول ڈالا گیا اور آگ لگا دی گئی۔

جب شعلے اُن ڈاکوؤں کو لپیٹ میں لے رہے تھے، پولیس قریب ہی کھڑی دیکھتی رہی۔ اسی طرح ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار بھی، کیونکہ ہجوم نے انہیں ان افراد کو بچانے کی اجازت نہیں دی۔ یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ تینوں افراد کی آگ لگانے سے پہلے ہی موت واقع ہو چکی تھی یا وہ جل کر ہلاک ہوئے۔

میرے لیے اس دن جو کچھ ہوا اسے سمجھنا مشکل تھا، ایک مشتعل گروہ نے سڑک پر استغاثہ، جیوری اور جج کے تمام کردار ادا کیے۔ کراچی کے ایک کرائم رپورٹر کے طور پر میں خون ریز دھماکوں اور گولیوں سے چھلنی لاشوں کا عادی ہو چکا تھا لیکن ہجوم کے ہاتھوں قتل، جہاں مشتبہ افراد کو انصاف کے نام پر مارا پیٹا اور جلایا گیا، ایک بالکل نئی کہانی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایک دہائی بعد ایسے واقعات معمول بن جائیں گے۔

ہجوم کے ہاتھوں ’انصاف‘ کا عروج

شہری پولیس رابطہ کمیٹی کے مرتب کردہ اعداد و شمارکے مطابق، گزشتہ سال 2024 میں کراچی میں ڈکیتیوں کے دوران مزاحمت کرتے ہوئے تقریباً 100 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دوران اسٹریٹ کرائم میں ملوث گینگز کی تعداد میں نمایاں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا، جو 20 سے 35 سے بڑھ کر 50 سے 60 ہو گئی۔

جرائم میں اضافے کے ساتھ شہر میں ہجوم کے ہاتھوں قتل بھی بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) کے مطابق پچھلے تین سال میں کراچی کی سڑکوں پر 55 مشتبہ افراد کو ہجوم نے قتل کیا۔ 2023 اور 2024 میں ہر سال 20 اور 2022 میں 15 افراد مارے گئے۔

یونیورسٹی آف وارویک انگلینڈ میں کرمنالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زوہا وسیم نے کہا کہ ’اس نام نہاد ہجوم کے ہاتھوں انصاف حاصل کرنے کے واقعات بڑھنے کے پیچھے کئی عوامل ہیں۔ پولیس، عدالتوں اور مجموعی طور پر فوجداری نظام انصاف پر اعتماد کی کمی جزوی طور پر مسئلہ ہے۔‘

  فیصل آباد میں ایک مشتعل ہجوم، فوٹو: ڈان نیوز
فیصل آباد میں ایک مشتعل ہجوم، فوٹو: ڈان نیوز

ایک واقعہ جو میری یادداشت میں تازہ ہے وہ سال 2010 میں سیالکوٹ کے دو بھائیوں کا قتل ہے، جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 17 سالہ مغیث اور 15 سالہ منیب کو دن دہاڑے ایک ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں قتل کر دیا۔ بھائیوں کو ڈاکو قرار دیا گیا، ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ایک پانی کی ٹنکی کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔ ہجوم انہیں آگ لگانے ہی والا تھا کہ ان کے خاندان کے افراد موقع پر پہنچے اور انہیں گھر لے گئے۔

یہ شاید ہجوم کے ہاتھوں قتل کے ان چند واقعات میں سے ایک تھا جہاں سات افراد کو سزائے موت دی گئی، چھ کو عمر قید کی سزا ہوئی اور موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کو تین سال کے لیے جیل بھیجا گیا۔

اس واقعے پر ایک نجی یونیورسٹی کی دو طالبات نے ’سیالکوٹ سانحہ کے پیچھے کی نفسیات‘ کے عنوان سے مقالہ مرتب کیا جو 2018 میں ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع بھی ہوا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے سوشل سائنسز کی فارغ التحصیل فرحین ناصر اور خدیجہ نعیم نے اس مقالے میں لکھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ بدعنوان، برائیوں اور بغض میں مبتلا ہو رہا ہے جہاں لوگ خود پر قابو کھو رہے ہیں، ہمدردی کے جذبات ختم ہو رہے ہیں، دوسروں پر اعتماد نہیں رہا اور دوسروں کی تکلیف سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔‘

مقالے کی روشنی میں یہ ظاہر ہوا کہ انسانی برائی کی عام وجوہات میں شخصیت کا خاتمہ، دوسروں کے ذریعے کی گئی برائی کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینا، خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرنا، نفسیاتی فاصلے، جواز، معنوی فریمنگ اور دقیانوسی لیبلنگ شامل ہیں، جو غیر انسانی سلوک کا باعث بنتی ہیں۔

طالبات کے مقالے میں سفارش کی گئی کہ مستقبل میں ان قوموں پر توجہ مرکوز کی جائے جہاں ایسے ہولناک تشدد کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کون سی سماجی اقدار کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں اپنی قوم میں شامل کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔

نظام انصاف کی ناکامی

سندھ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل محمد علی قاسم نے کہا کہ عام آدمی کے لیے ہجوم کے ہاتھوں قتل منصفانہ سلوک اور فوری انصاف کی مانند ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن ایک قانون دان کے لیے، یہ ایک تباہ کن منظر ہوتا ہے اور اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت کہ قانونی نظام کہیں نہ کہیں ناکام ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘۔

آج کی مہذب دنیا میں پرانے ادوار کی خونریزی، انتشار اور بےامنی کی جگہ عدالتی نظامِ انصاف نے لے لی ہے۔ قانونی نظام کے وجود کا بنیادی مقصد ہی تشدد کو روکنا اور بے گناہ جانوں کا تحفظ کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ مجرموں کو ان کے جرائم کی سنگینی کے مطابق سزا دینے کے لیے بھی موجود ہے۔

محمد علی قاسم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اور یہی اصول شہری اور مہذب معاشروں میں غالب رہنا چاہیے، نہ کہ سڑکوں پر کیا جانے والا انصاف۔‘

کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ (ایس ایس پی) ذیشان صدیقی نے کہا کہ ’پولیس کے مطابق ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات زیادہ تر کم تعلیم یافتہ علاقوں اور محلوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں عوام کا برداشت کا پیمانہ کم ہوتا جا رہا ہے اور انہیں بس ایک چنگاری درکار ہوتی ہے اپنے غصے کو نکالنے کے لیے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ پولیس کی اولین ترجیح ایسے حالات کو ابتدا میں ہی روکنا ہے اور وہ بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ مشتبہ افراد کو ہجوم کے چنگل سے نکالا جائے۔ ڈسٹرکٹ سینٹرل کی مثال دیتے ہوئے ایس ایس پی نے بتایا کہ ایک سال میں وہاں ایک بھی ہجوم کے ہاتھوں قتل کا واقعہ پیش نہیں آیا۔

تاہم اس بات سے شہر میں اس مسئلے کی سنگینی کم نہیں ہو جاتی۔ رواں ماہ 10 اپریل کو ایک ڈمپر کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار کے زخمی ہونے کے بعد مشتعل ہجوم نے 9 ڈمپرز اور واٹر ٹینکرز کو آگ لگا دی۔ یہ واقعہ نارتھ کراچی میں فور کے چورنگی کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ پر پیش آیا تھا۔ پولیس کے مطابق ہجوم نے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں پر بھی پتھراؤ کیا جب وہ آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

اس واقعے کے محض دو دن بعد نارتھ ناظم آباد میں ایک اور واٹر ٹینکر کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس کے بیان کے مطابق ٹینکر کے ڈرائیور نے پاپوش نگر کے قریب ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹکر ماری اور جائے وقوع سے فرار ہو گیا۔ تاہم، 10 سے 12 افراد نے اس کا پیچھا کیا اور فائیو اسٹار چورنگی کے قریب اسے روک کر اس پر حملہ کیا، گاڑی کی کھڑکیاں توڑیں اور اسے آگ لگا دی۔

اسی طرح گزشتہ ماہ قائد آباد کے علاقے میں ایک ڈکیت نے ایک تاجر کو قتل کیا، جس کے بعد اسے پکڑ کر مارا پیٹا گیا، اسے شدید زخمی حالت میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔

اسی قسم کا ایک اور واقعہ گزشتہ سال نومبر میں گلستانِ جوہر میں پیش آیا تھا جہاں ایک اور مشتبہ ڈاکو کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ گزشتہ سال ہی مئی میں اورنگی ٹاؤن پولیس نے ایک مشتبہ ڈاکو کو ہجوم کے ہاتھوں زندہ جلائے جانے سے بچالیا تھا۔

عوامی اعتماد کی بحالی

وارویک یونیورسٹی کی ڈاکٹر وسیم نے سماجی و معاشی تفاوت کو ہجوم کے ہاتھوں انصاف کے بڑھتے واقعات کی بڑی وجوہات میں شمار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’لوگ مہنگائی، طبقاتی تفریق، اور بنیادی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے شدید مایوسی کا شکار ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ مایوسی اب غصے کی شکل اختیار کر رہی ہے، آپ اس ملک کے مذہبی و سیاسی منظرنامے کو سماجی و معاشی ناہمواریوں اور فوجداری نظامِ انصاف میں موجود بڑی خرابیوں سے الگ نہیں کر سکتے ، یہی وہ مشترکہ عوامل ہیں جو کراچی یا پاکستان کے دیگر شہروں میں ہجوم کے ہاتھوں قتل اور تشدد میں اضافے کے ذمہ دار ہیں‘۔

جب 2008 میں کراچی نے پہلی بار ہجوم کے ہاتھوں قتل کا مشاہدہ کیا تو اس نے ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ محض چند دن بعد 18 مئی کو نارتھ ناظم آباد میں دو مشتبہ ڈاکوؤں کو شدید مارا پیٹا گیا اور آگ لگا دی گئی۔ اس واقعے کے بعد اُس وقت کے سندھ پولیس چیف ڈاکٹر شعیب سڈل نے اعتراف کیا کہ عوام اس نظام سے بدظن ہو چکے ہیں جو ان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا کیونکہ یہ نظام ان کی شکایات کا کبھی جواب نہیں دیتا۔

اس کے بعد کے دنوں میں اخبارات نے سرخیاں لگائیں جیسے ’کراچی میں ہجوم کا انصاف حکومت کے لیے پریشان کن‘، ’جنگل کا قانون؟‘ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی۔

بلوچستان کے سابق انسپکٹر جنرل عبدالخالق شیخ جنہوں نے اپنی ملازمت کے ایام زیادہ تر سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی میں گزارے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ہر واقعے کو نظامِ انصاف پر ایک واضح فرد جرم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اس پر پالیسی سازوں، قانونی ماہرین، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کو ایک انتباہ کے طور پر کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ قانون و انصاف کے نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنے، قانون کی حکمرانی اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔’

اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔

ایس رضا حسن

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، ڈان اور رائٹرز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔