نصف کراچی، پانی سے مکمل محروم!
علی الصبح تقریباً چھ بجے، آمنہ دو بالٹیاں اٹھائے قطار میں کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ تقریباً ایک گھنٹہ پانی کے لیے انتظار کرتی ہیں، اگر پانی آیا تو اور اگر نہ آیا، تو وہ پندرہ منٹ پیدل چل کر اُس ہمسائے کے گھر جاتی ہیں جہاں جو پانی فروخت کرتے ہیں، وہ روزانہ اپنے خاندان کے لیے ناشتہ بنانے سے پہلے یہ کام کرتی ہیں۔
دن کے وقت، جب اُن کا پانچ سالہ بیٹا بیت الخلا جانا چاہے تو وہ اُسے گلی کے آخری کونے پر لے جاتی ہیں، جہاں چند خاندان ایک عارضی بیت الخلا مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہاں دروازہ ہے نہ پانی اور نہ ہی نکاسی کا کوئی نظام۔ اُن کا محلہ بھی کراچی کی بہت سی کچی آبادیوں جیسا ہی ہے جہاں صاف پانی اور حفظان صحت کے انتظامات تک رسائی روزانہ کی جدوجہد ہے۔
آمنہ کی کہانی منفرد نہیں۔ یہ اُن لاکھوں افراد کی روزمرہ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جو کراچی کی کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، جہاں شہر کی تقریباً نصف آبادی رہائش پذیر ہے۔ ان بستیوں کو اکثر پالیسی مباحثوں میں ایک ہی زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے، جیسے کہ ہر کچی آبادی کے حالات اور مسائل یکساں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی پانی، صفائی اور حفظانِ صحت کی سہولیات تک رسائی میں بہت فرق ہے۔
ہماری حالیہ تحقیق جو کراچی کی پانچ بستیوں پر مشتمل ہے، یہ واضح کرتی ہے کہ یہ فرق کس قدر نمایاں ہو سکتے ہیں۔ اگر کراچی واقعی اپنے پانی اور حفظان صحت کی سہولتوں کے بحران پر قابو پانا چاہتا ہے، تو اس کا حل اربوں روپے کے میگا پروجیکٹس میں نہیں بلکہ اُن کمیونٹیز میں ہے جو سب سے زیادہ محروم ہیں، جہاں معمولی سرمایہ کاری بھی روزمرہ کی زندگی میں نمایاں بہتری لا سکتی ہے۔
دو بستیوں کی کہانی
منظور کالونی اور الیاس گوٹھ کا موازنہ کیجیے؛
منظور کالونی جسے 1990 کی دہائی کے اوائل میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی مدد سے باقاعدہ حیثیت ملی، میں بنیادی مگر فعال ڈھانچہ موجود ہے۔ تقریباً ہر گھر میں پانی کی لائنیں، فلش ٹوائلٹس، اور اوور ہیڈ واٹر ٹینک ہیں۔ اس کے نتیجے میں، دیگر بستیوں کی نسبت یہاں کے رہائشی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شکایات کم کرتے ہیں۔
اس کے برعکس الیاس گوٹھ ایک چھوٹی بستی ہے جو تین ہٹی لیاقت آباد کے قریب ایک کھلے نالے کے ساتھ واقع ہے۔ کسی بھی گھر میں پانی کی لائن یا نجی بیت الخلا موجود نہیں۔ یہاں کے لوگ اپنے ہمسایوں یا قریبی ڈھابے سے پانی حاصل کرتے ہیں اور ہر فرد روزانہ صرف 13 لیٹر پانی استعمال کرتا ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی معیار سے کم ہے بلکہ کراچی کے دیگر پانی کی قلت والے علاقوں سے بھی کم ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے کم از کم معیار جو کہ آفات زدہ علاقوں کے لیے 15 لیٹر فی کس یومیہ ہے، سے بھی نیچے ہے۔ صفائی کی سہولیات بھی اسی قدر ابتر ہیں۔ پوری بستی میں صرف ایک عوامی بیت الخلا ہے، جو صرف خواتین کے لیے مختص ہے اور ایک بار استعمال کرنے پر 20 روپے لیے جاتے ہیں۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ الیاس گوٹھ کے ہر چار میں سے تین گھروں نے گزشتہ دو ماہ میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شکایت کی۔
قانونی حیثیت
ان دونوں بستیوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک کو ریاست نے تسلیم کیا ہوا ہے اور دوسری کو نہیں۔ منظور کالونی کو باقاعدہ حیثیت حاصل ہے، جب کہ الیاس گوٹھ کو نہیں۔ مگر ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانونی حیثیت (ریگولرائزیشن) نہ تو پانی اور حفظان صحت کی بہتر سہولیات کے لیے لازمی ہے، اور نہ ہی اس کی ضمانت۔
مثال کے طور پر شیرپاؤ بستی کو لیجیے۔ اگرچہ یہ ریگولرائزڈ نہیں ہے مگر کے ڈی اے اسکیم ون کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ کئی باقاعدہ بستیوں سے بہتر حالت میں ہے۔ دو تہائی گھروں میں پانی کی لائنیں ہیں، اور تقریباً تمام گھروں میں اپنے نجی فلش ٹوائلٹس موجود ہیں۔ درحقیقت پانی کی دستیابی اتنی بہتر ہے کہ اردگرد کی بستیوں کے رہائشی یہاں آ کر پانی بھرتے ہیں۔
اس کے برعکس قائداعظم کالونی جو حال ہی میں ریگولرائز ہوئی ہے ابھی تک مسائل سے دوچار ہے۔ صرف ایک تہائی گھروں میں پانی کی لائنیں موجود ہیں، باقی مہنگی بورنگ پر انحصار کرتے ہیں۔ قانونی حیثیت کے باوجود یہ کمیونٹی اُن فوائد سے محروم ہے جو ریگولرائزڈ آبادیوں کو میسر ہونے چاہئیں۔
ادارہ جاتی تقسیم
تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریگولرائزیشن کے باوجود بہتر سہولیات کیوں میسر نہیں؟ اس کا جواب کراچی کے ادارہ جاتی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں میں چھپا ہے۔
جیسا کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ایک افسر نے بتایا کہ ’1996 سے پہلے کراچی میں پانی اور نکاسی کے نظام کی دیکھ بھال کے ایم سی کے تحت تھی چونکہ کے ایم سی اکثر زمین کے حصول اور ریگولرائزیشن کے عمل میں شامل ہوتی تھی، اس لیے پانی اور صفائی کے مسائل بھی اسی عمل میں شامل کیے جاتے تھے۔ مگر 1996 میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ایک الگ ادارہ بن گیا اور اب وہ ریگولرائزیشن میں شامل نہیں۔‘
ماضی میں اگرچہ سندھ کچی آبادی ایکٹ کے تحت واٹر یوٹیلٹی پر یہ لازم نہیں تھا کہ وہ ریگولرائزیشن کے دوران سہولیات فراہم کرے مگر شہر کی مشترکہ حکمرانی کے ڈھانچے کی وجہ سے پانی اور حفظان صحت کے تقاضے پھر بھی پورے ہو جاتے تھے۔ مگر آج واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے الگ ہونے سے یہ تعلق ٹوٹ گیا ہے۔ نئی ریگولرائزڈ بستیوں کو اراضی سے متعلق محکمے تو تسلیم کر لیتے ہیں مگر سہولیات فراہم کرنے والے ادارے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
یہ ادارہ جاتی تبدیلیاں یہ واضح کرتی ہیں کہ محض قانونی حیثیت کافی نہیں۔ کراچی کو اپنے طریقہ کار میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ یوٹیلیٹی اور متعلقہ سرکاری ادارے مل کر باقاعدہ بستیوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہوں۔
نلکوں اور بیت الخلا سے آگے
اگرچہ ریگولرائزیشن اور بنیادی انفرااسٹرکچر کو ترقی کے سنگِ میل کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر جہاں یہ سہولیات موجود بھی ہوں، وہاں بھی رہائشی اکثر غیر محفوظ حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ نلکے اور ٹوائلٹ کا ہونا ضروری نہیں کہ پانی محفوظ ہو یا صفائی معیاری ہو۔
ہماری تحقیق کی گئی پانچ میں سے چار بستیوں میں زیادہ تر گھروں نے بظاہر بہتر پانی اور صفائی کی سہولیات استعمال کیں۔ وہاں بنیادی ڈھانچہ موجود تھا، پانی کی لائنیں، گھر کے اندر ٹوائلٹس اور بعض میں پانی ذخیرہ کرنے کا نظام۔ لیکن جب ہم نے گہرائی میں جا کر دیکھا تو حقیقت کچھ اور تھی۔ پانی کی غیر یقینی فراہمی اور ناقص اندرونی پلمبنگ کی وجہ سے اکثر اوقات گندے پانی اور پینے کے پانی کی لائنیں آپس میں مل جاتی ہیں۔ گھریلو سطح پر پانی کو صاف کرنے کا کوئی خاص رواج نہیں۔ نتیجتاً انفرااسٹرکچر موجود ہونے کے باوجود، جو پانی گھروں تک پہنچتا ہے وہ پینے کے قابل نہیں ہوتا اور خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں میں بیماریوں کا خدشہ برقرار رہتا ہے، اور صحت کے اخراجات ایسے کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں۔
مداخلتیں اور میگا پروجیکٹس ہدف نہیں
یہ سمجھنا کہ کچھ بستیاں دوسروں سے بہتر کیوں ہیں، ایک زیادہ اعلیٰ اور منصفانہ پالیسی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر پالیسی ساز اب بھی ایک ہی طرز پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اب بھی بڑے انفرااسٹرکچر اور پروجیکٹس کو ترجیح دیتے ہیں، جیسا کہ نئی پائپ لائنیں یا سمندری پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس۔
ہماری تحقیق ایک بہتر راستہ تجویز کرتی ہے۔ بہتر حکمرانی، درست سمت میں سرمایہ کاری اور کمیونٹی پر مبنی حل زیادہ پائیدار نتائج دے سکتے ہیں۔ مثلاً صنفی لحاظ سے شامل اور کمیونٹی کے زیر انتظام بیت الخلا بنانے سے نہ صرف صحت میں بہتری آئے گی بلکہ لوگوں کی عزتِ نفس بھی بحال ہو گی۔ کم لاگت گھریلو پانی صاف کرنے کے طریقے جیسے فلٹرز یا کلورینیشن، بیماریوں میں نمایاں کمی لا سکتے ہیں۔ اندرونی پلمبنگ نیٹ ورک کی معمولی مرمت آلودگی کے ذرائع کو ختم کرسکتی ہے۔ یہ اقدامات بڑے منصوبے نہیں مگر یہ عدم مساوات کو زیادہ مؤثر طریقے سے نشانہ بناتے ہیں۔
حقیقی تبدیلی کے لیے کراچی کو ریگولرائزیشن کے لیے ایک جامع نقطۂ نظر اپنانا ہو گا۔ قانونی حیثیت کو عملی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری یوٹیلٹیز کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ ریگولرائزڈ بستیوں کو پانی اور حفظان صحت کی سہولیات فراہم کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مخصوص فنڈنگ اور ان غیر سرکاری تنظیموں کی مدد بھی ضروری ہو گی جو ریاست اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہیں۔
کراچی کی ہر کچی آبادی ایک جیسی نہیں، کچھ بس موجود ہیں اور کچھ بامشکل سانس لے رہی ہیں مگر سب نقشے پر صرف ایک نقطہ یا مین لائن سے کنکشن نہیں مانگ رہیں، انہیں ایسی سہولیات کی ضرورت ہے جو معیاری، قابل بھروسہ اور معقول قیمت میں ہوں۔ اگر کراچی کو ایک منصفانہ اور لچک دار شہر بننا ہے تو پالیسی سازوں کو انفرااسٹرکچر اور نمائشی قانون سازی سے آگے بڑھنا ہو گا اور ایسی اصلاحات کی طرف آنا ہو گا جو واقعی عوام کے لیے ہوں۔
اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔
مصنف Tufts یونیورسٹی میں شہری و ماحولیاتی پالیسی اور ماحولیاتی مطالعہ جات کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔