پیارے 'خان' کے نام
پیارے عظیم خان / کپتان / فوق البشر
ایک پرانے چاہنے والے، ایک دیرینہ مداح، اور اس گروہ کے ایک ممبر کی طرف سے آداب جنہیں آپ لبرل گندگی کہتے ہیں- سنہ انیس سو بانوے کی کی قیادت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے پہلا ورلڈ کپ جیتا تھا، جس کے بعد آپ نے ایک خود پرست تقریر فرمائی تھی، میں اس وقت ایک مقامی ہفتہ وار کے لئے رپورٹر اور فیچر رائیٹر کا کام کر رہا تھا-
جب ملکی پریس کا زیادہ تر حصّہ آپ کو مغرور اور خودغرض کا خطاب دے رہا تھا، میں نے اپنے مضامین میں آپ کا دفاع کیا- اس حقیقت کے باوجود (کہ آخر میں) آپ نے بہادری کے ساتھ یہ تسلیم بھی کر لیا کہ فتح کا پورا کریڈٹ خود لے جانا ایک غلطی تھی، جب کہ آپ کی ٹیم پیچھے کھڑی اپنا سر سہلاتی اور اشاروں میں آپ کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی، " کپتان بھائی، ہمیں بھول نہ جانا!"
ایک مداح کی حیثیت سے، ( انیس سو نوے کی دہائی کے بیچ میں) یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے سیاست میں شمولیت اور اپنی خود کی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے- حالانکہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جب میں نے آپ کو جنرل (رٹائرڈ) حمید گل کے ساتھ دیکھا تو تھوڑا خائف ہو گیا-
میں جانتا ہوں کہ لبرل بدمعاشوں نے ایک ملحد سپر پاور کو نیچا دکھانے میں، جنرل گل کے کردار کو مجرمانہ حد تک کمزور سمجھا، جنہوں نے اس مقصد کے لئے بڑی سمجھداری اور مصلحت اندیشی کے ساتھ امریکی ڈالر اور سعودی ریال کا استعمال کیا، لیکن مجھ جیسے مداحوں کے نزدیک خوش باش خان کے لئے کف اڑاتے، جھری زدہ جنرل گل کسی طور ایک اچھا شگون نہیں تھے-
میں جانتا ہوں کہ جنرل گل جیسے ہیرو کی شان میں گستاخی کررہا ہوں، لیکن وقت اور تاریخ دونوں ہی بڑی ظالم شے ہیں کیوں کے اس وقت واحد گل جس کی اہمیت ہے وہ عمر گل ہے اور وہ بھی اب اپنی فارم کھو چکے ہیں-
آپ اسے میری بد خواہی کہہ لیں، لیکن مجھے بہت خوشی ہوئی جب آپ نے ایک مالدار یہودی کی سفید فام برٹش نیشنل بیٹی سے شادی کا فیصلہ کرکے بلآخر جنرل گل کو ناراض کر ہی دیا اور ایک لاچارگی کی حالت میں لا کر چھوڑ دیا-
لاچارگی کا واضح تاثر اگر ممکن ہے تو وہ جنرل گل کا خائف چہرہ تھا جب انہوں نے یہ خبر سنی- محھے یاد ہے جب انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ کتنے مایوس ہوۓ ہیں- ان کا شاگرد ہاتھ سے نکل گیا تھا-
میں نے اپنے بد اندیش دوستوں کو بتایا خان صاحب کے اس عمل سے پتا چلتا ہے کہ وہ اب بھی وہی خان ہیں جنھیں ہم ان کے کرکٹ کیریئر کے دوران سراہا کرتے تھے، یہ وہی شخص ہے جسے ہم پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں سب سے متاثر کن اور زہین کپتان سمجھتے تھے-
میرے کچھ دوستوں نے مجھے بیوقوف کہا جب میں نے سنہ انیس سو ستانوے میں اپنی تنخواہ کا آدھا حصّہ آپ کے لاہور میں تعمیر کے گۓ کینسر ہسپتال کو دینے کا فیصلہ کیا-
ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا، کیا تم نے حال ہی میں ان کی باتیں سنی ہیں؟
آپ نے جس طرح کی باتیں کرنی شروع کر دی تھیں وہ انہیں پسند نہیں آئیں- جیسے ایک غصّہ ور، خود صالح رجعت پسند کی طرح، یا میرے کچھ دوستوں کے مطابق جیسے 'حمید گل جو ایمفیٹائن استعمال کر رہا ہو'-
جھوٹ ہے یہ سب، میں نے سوچا، آخر اس کا کینسر ہسپتال سے کیا لینا دینا، ہے نا؟ چناچہ میں ہسپتال کی انتظامیہ کے نام ایک لفافے میں اپنا نذرانہ لے کر پوسٹ آفس پہنچ گیا، اس پوری کارروائی کے بعد مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی-
اتفاق دیکھیں، ٹھیک اسی شام میں نے دی فرائیڈے ٹائمز میں آپ پر ایک پورے صفحے کا آرٹیکل دیکھا، میں تھوڑا گھبرایا، ہچکچایا، خود پر جبر کر کے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی، لیکن میں آپ کی کچھ باتوں کو نظر انداز نہ کر سکا جو اس آرٹیکل میں چھپی تھیں-
آپ بار بار، غلامانہ ذہنیت والے بھورے صاحب، مغرب کی زوال پذیر، نشے میں دھت اور لبرل نوجوان ثقافت، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو جیسے بدعنوان لوگوں، ایمان کی عظمت اور آپ نے کس طرح اسے دریافت کیا، ان سب کے بارے میں بات کرتے رہے-
میں آپ کو دیگر شہری مڈل کلاس مردوں کی طرح سمجھا جو اپنی جوانی رنگینی و شباب میں گزارنے کے بعد جب ادھیڑ عمری کو پنہچتے ہیں تو اچانک ان پر 'ایمانیات کا ظہور' ہوتا ہے-
ٹھیک ہی تو ہے، میں نے سوچا، لیکن جس بات نے حقیقت میں مجھے پریشان کیا، وہ یہ تھی کہ کس طرح ان 'عظیم روحانی دریافتوں' کو اپنے تک محدود رکھنے کی بجاۓ یہ لوگ ان کی نمائش کرتے ہیں، ان کا دکھاوا کرتے ہیں اور دوسروں کو پرکھنے کے لئے ان کا استعمال کرتے ہیں-
لیکن آپ کوئی عام پاکستانی نہیں تھے- آپ عمران خان تھے- اور اس آرٹیکل کو پڑھنے کے دوران میں یہ بھی سوچتا رہا: کہ آپ جیسا قبل فخر پاکستانی، ایک مالدار سفید فام مغربی لڑکی سے شادی کر کے 'غلامانہ ذہنیت والے مردوں کی مثال کیوں بن رہا ہے؟' ویسے مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن کیا آپ کو کوئی قابل فخر پاکستانی خاتون شادی کے لئے نہیں ملی؟
اور تب بھی، میں مغرب کے زوال پذیر، نشئی نوجوان کلچر سے آپ کی ناراضگی اور تننقید سمجھنے سے قاصر رہا، کیا ماضی میں (اور آج بھی) راک سٹار مک جیگر اور اداکار پیٹر او' ٹولے آپ کے بہترین دوستوں میں شامل نہیں ہیں؟ یہ دونوں اسی کلچر کے علمبردار ہیں جس میں آپ عیب نکالتے رہے ہیں-
کیا آپ نے انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستر کے زمانے میں انہیں بتایا کے انکا طرز زندگی کتنا گرا ہوا اور قابل نفرت ہے؟
مجھے یقین ہے آپ نے ایسا نہیں کیا ہو گا- لیکن ہمیں یہ سب باور کروانے میں آپ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، ہم جیسے لوگ جو ایک ایسے ملک میں رہ رہیں ہیں جہاں انیس سو ستر کے بعد سے ایک ایسا کلچر فروغ پا رہا ہے جہاں لوگ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اور ایسے لوگوں کے لئے ہھتیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک 'برے مسلمان' ہیں یا بالکل کافر ہیں-
میں تو آپ کی پرستش کرتا تھا، میں یہی سوچتا رہا کہ آخری آپ کس سے مخاطب ہیں، میں بھی اسی خدا پر یقین رکھتا ہوں جس پر آپ رکھتے ہیں، میرا بھی وہی ایمان ہے جو آپ کا ہے، ہاں میں کبھی اپنے ایمان کی رسم و رواج کا پاسدار نہیں رہا اور نہ (آپ کی طرح) ابھی ہوں، لیکن کیا اس طرح میں آپ سے کم تر مسلمان کہلاؤں گا؟
اگر آپ مجھ جیسے لوگوں سے مخاطب نہیں تھے، تو پھر کس سے تھے؟
اٹھانوے فیصد پاکستانی مسلمان ہیں، اور انیس سو اسی کے بعد سے ان میں سے زیادہ تر اپنے ایمان کی نمائش کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں-
اور پھر میں سب سمجھ گیا، آپ ہی نے سمجھنے میں میری مدد کی- یہ تب ممکن ہوا جب میں نے حال ہی میں آپ کی کتاب "پاکستان: اے پرسنل ہسٹری" پڑھی-
کتاب میں موجود بہت سی باتوں پر میں آپ سے متفق نہیں تھا، لیکن پھر بھی میں آپ کی دیانت داری کو سراہوں گا، خصوصاً تب جب آپ نے یہ اعتراف کیا کہ آپ کو سنہ انیس سو اسی کی دہائی میں، ضیاء الحق آمریت کے دوران پاکستانی سیاست اور سوسائٹی کی بہت کم معلومات ہیں-
خیر ایک مصروف کرکٹر کی حیثیت سے، سرعام کوڑوں کی سزاؤں جیسے مناظر، آدھی رات کی گرفتاریوں، ذہنی پسماندگی اور اس زمانے کے مذہبی دوغلے پن سے آپ تو بچ تو سکتے ہیں، لیکن دیگر پاکستانی نہیں-
اس ماحول میں خود کو ڈھالنے کے لئے، بہت سے پاکستانیوں نے اپنے روحانی اور سیاسی رجحانات کو دوبارہ ترتیب دیا اور جنہوں نے ایسا نہ کیا انہیں بہت سی سختیاں جھیلنی پڑیں-
ایسے معاملات سے لاعلم ہونا ایک کھلاڑی (اور وہ بھی آپ جیسا بہترین کھلاڑی) کے لئے تو ٹھیک ہے، لیکن ایک سیاست دان کے لئے یہ لاعلمی (یا پاکستانی تاریخ کے پریشان کن لمحات کا اتنی دیر سے ادراک ہونا) یقیناً مسائل کھڑے کر سکتا ہے-
لیکن آج بھی جب کہ آپ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں اور ہزاروں نوجوان آپ کے نظریات کو سراہتے ہیں، شاید آپ کے پاس اپنی ملکی تاریخ کی معلومات ابھی تک سطحی ہیں-
آپ کی کتاب پڑھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جن چیزوں کے بارے میں آپ اتنا بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں جیسے ایمان، بدعنوانی، ڈرون حملے، پشتون روایات، اقتصادیات وغیرہ ان سب کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں یا یوں کہہ لیں کے آپ انہیں کتنا سمجھتے ہیں-
زیادہ تر پاکستانیوں کی طرح تاریخ پر آپ کی گرفت کمزور ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ادھ سچ اور فرضی داستانوں کو تاریخی حقائق بنا کر پڑھایا جاتا ہے-
آخر کو جو لوگ آپ کے نظریاتی سرپرست رہے ہیں، جنرل حمید گل اور جماعت اسلامی، یہ ٹھیک انہی نظروں سے اس ملک اور پوری دنیا کو دیکھتے ہیں، جو پاکستانی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے-
کیا آپ کے بیٹوں کا واسطہ کبھی ایسی کتابوں سے پڑا ہے؟ مجھے نہیں لگتا-
آپ کے بیٹے تو یو کے میں پل بڑھ کر سمجھدار انسان بنیں گے، وہ ایک ایسی تعلیم حاصل کریں گے جس میں دنیا کو معقول، تخلیقی اور عملی نظریات کے تحت سمجھا جاتا ہے، انہیں کبھی بھی ایسی تعلیم کا تجربہ حاصل نہیں ہوگا جس کا واحد مقصد فقط کوتاہ بین نظریات کا فروغ ہے-
جب آپ نے سنہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے تعلیمی اصطلاحات کی بات کی تو میں کافی خوش ہوا- میں نے سوچا عظیم خان کے علاوہ اور کون ہے جو ہمیں ایسی کتابوں سے چھٹکارا دلاۓ جو نوجوان ذہنوں کو لکیر کا فقیر بنا دینے کے لئے تیار کی گئی ہیں-
لیکن مجھے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آپ ایسا کیوں کرینگے؟ میرا مطلب ہے، اگر کوئی سوشل میڈیا پر آپ کے کٹر حامیوں سے عقلی رابطہ کرنے کی کوشش کرتا یا کرتی ہے تو یہی لکیر کے فقیر ہی تو سامنے آتے ہیں-
اور اس طرح E= mc2 بن جاتا ہے E = &^%$#@#$**& -
کبھی آپ نے انہیں بات کرتے سنا ہے؟ ان میں سے بہت سوں کے آگے تو زمانہ قدیم کے رجعت پسند بھی ننھے بچے لگتے ہیں، اور بات کرنے والے کی سمجھ نہیں آتا کہ آیا وہ ایک شہری مڈل کلاس نوجوان سے بات کر رہا ہے یا ایک بےربط دیوانے متعصب سے-
ہاں آپ کی خیبر پختون خواہ کی حکومت نے تعلیمی اصطلاحات کے لئے اقدامات تو ضرور کیے- تاہم، بجاۓ آگے بڑھنے کے آپ کی حکومت نے پیچھے مڑنے کا فیصلہ کر لیا- میرے خیال سے، ریورس سوئنگ، ہے نا؟
خیبر پختون خواہ کی سابقہ حکومت اے این پی نے نصاب میں سے جہاد پر مخصوص آیات ختم کر دی تھیں، اس خیال کے تحت کہ سیاق و سباق کے بغیر یہ آیات نوجوان ذہنوں کو اسلام کے حوالے سے الجھن کا شکار بنا دے گی-
بجاۓ اس حوالے سے غور و غوض کرنے کے، آپ نے اے این پی کے اس اقدام کو یکسر مسترد کر دیا جیسے یہ کسی بدعنوان، شیطانی سیکولرسٹ کا کام ہو، اور اپنی وزارت تعلیم کو آزادانہ اختیار دے دیا کہ وہ انہیں نصاب میں دوبارہ شامل کر دیں-
وزارت کا کہنا ہے کہ "یہ آیات نوجوان ذہنوں میں جہاد سے مطلق الجھنوں کو ختم کر دیں گی"، میں نے کی بار ان آیات کا مطالعہ کیا ہے، انہیں نصاب میں بنا کسی سیاق و سباق کے شامل کر دیا گیا ہے- مجھے بتائیں آپ کی حکومت کا یہ قدم کسی طرح ان انتہا پسندوں سے مختلف ہے جنہوں نے انہی آیات کو (بنا کسی وضاحت کے) پاکستانی ریاست، حکومت اور عوام کے خلاف دہشتگردی کو منصفانہ قرار دینے کے لئے استعمال کیا ہے-
ہر مسلمان بچے کو اپنے گھر میں مناسب مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، ہے نا؟ اور اگر آپ کے لئے اسکول کے نصاب میں جہاد پر آیات شامل کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو کیوں نہ قرآن پاک میں رواداری اور علم کے حصول پر موجود آیات بھی نصاب کا حصّہ بنائی جائیں، جنہیں جہاد جیسے موضوعات کے مقابلے میں کچے ذہن بآسانی سمجھ سکتے ہیں؟
میں نے آپ کو کبھی 'طالبان خان' نہیں کہا، اور ارادہ بھی نہیں ہے- میں مانتا ہوں کہ آپ انتہا پسندوں سے جنگ، بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ جیتنے پر یقین رکھتے ہیں-
لیکن، جیسا کہ آپ اکثر کہتے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے، تو پھر میں اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آخر ہم کس بنیاد پر طالبان سے مذاکرات کریں؟
یہ امریکا کی جنگ ہے، ٹھیک؟ یعنی ہم امریکیوں کی جانب سے بات چیت کریں گے؟ کیا انہوں نے ہم سے ایسا کرنے کو کہا؟ اور آخر ہم کیوں یہ سب کریں؟
میں یہاں تھوڑی الجھن میں ہوں- آپ کا کہنا ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں، پھر بھی اس میں پاکستانی فوجی، پولیس والے اور شہری مر رہے ہیں، اور ان کے قاتل بھی پاکستانی ہیں-
آپ کے پاس اس کا بھی جواب ہے، اور آپ بار بار یہی کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے قاتل وہ پاکستانی ہیں جن کے خاندان ڈرون حملوں کا شکار ہوۓ، غصّے اور مایوسی کی حالت میں انہوں نے ہتھیار اٹھا لئے-
اچھا تو، امریکی درندگی کے شکار ان مظلوموں نے ہتھیار کن کے خلاف اٹھاۓ؟
ان غیر مسلح لوگوں کے خلاف جو مسجدوں، مزاروں اور گرجا گھروں میں عبادت کر رہے تھے؟ مارکیٹ میں موجود عورتوں اور بچوں کے خلاف؟ پاکستانی فوج اور پولیس کے خلاف؟ اسکول جانے والی بچیوں کے خلاف؟
اوہ! ظاہر ہے، کیونکہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے امریکی جنگ لڑ رہے تھے- چلیں مان لیتے ہیں کہ ہم ایسا کر رہے تھے، لیکن کیا اتنے سال گزر جانے کے بعد یہ مکمل طور پر ہماری جنگ نہیں بن گئی؟
سنہ دو ہزار دو سے اب تک پچاس ہزار سے زائد پاکستانی مارے جا چکے ہیں- اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ پاکستان کی جنگ نہیں ہے تو وہ یقیناً گوئٹے مالا میں رہتا ہوگا-
تاہم، آپ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ اگر امریکا افغانستان کے انتہا پسندوں سے مذاکرات کر سکتا ہے تو پھر پاکستان ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کر سکتا جو اس کے پہاڑوں، غاروں اور شہروں میں آسیب کی طرح پھیلے ہوے ہیں-
اب جیسا کہ امریکا تو یہ مذاکرات افغانستان میں موجود اپنی فورسز کے بحفاظت انخلاء کے لئے مذاکرات کر رہا ہے، تو پھر ہمیں کس بات کے لئے مذاکرات کرنے چاہییں؟
کیا ہم قابض فورس ہیں؟ کیا ہماری فوجوں نے شمال-مغربی پاکستان پر قبضہ جمایا ہوا ہے؟ کیا ہمیں خیبر پختون خواہ سے محفوظ انخلاء کے لئے مذاکرات کرنے چاہییں تاکہ انتہا پسند جو مرضی آۓ کریں پہلے خیبر پختون خواہ میں پھر باقی ماندہ پاکستان میں؟
کیا ہمیں اس بات پر مذاکرات کرنے چاہییں کہ 'برے مسلمانوں' کو گوادر اور کراچی کے ساحلی علاقوں میں رہنے کی اجازت دی جاۓ؟ کیا ہمیں گلپھڑے اگالینے چاہیں تاکہ بحیرہ عرب میں کافروں کے لئے شہر تلاش کر سکیں؟
میں امن بات چیت کا حامی ہوں خان صاحب، ہم سب امن چاہتے ہیں، کون پاگل ہوگا جو ایسا نہیں چاہے گا!
لیکن یہ فقط یکطرفہ ٹریفک ہے، حکومت اور ریاست مسلسل امن کے بارے میں بات کر رہے ہیں، لیکن جواب میں انہیں کیا مل رہا ہے؟
مردوں، عورتوں اور بچوں پر خود کش حملے؟ سینئر ملٹری افسروں اور فوجیوں کے خلاف آئی ای ڈی دھماکے؟
ظاہر ہے، جیسا کہ آپ کا کہنا ہے کہ یہ کاروائیاں ان کی ہیں جو امن بات چیت میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں، کیا آپ ان سبوتاژ کرنے والوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟
امریکی ہیں، انڈین ہیں. افغانی ہیں یا اے این پی والے ہیں؟ براۓ مہربانی مجھ جیسے پاکستانیوں کی الجھن دور کریں-
آپ کا کہنا ہے کہ اے این پی، خودکش حملوں جیسے معاملات کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کر رہی ہے، میرے خیال سے اسے نہیں کرنا چاہیے، لیکن آپ ڈرون حملوں جیسے معاملات پر اپنی سیاست چمکا سکتے ہیں، ٹھیک؟
آخر کو آپ عظیم خان ہیں، جس نے ہمیشہ اونچی اخلاقی بنیادوں کو اپنایا ہے-
بالکل یہی وجہ ہے کہ مغربی پریس زرداری، نواز شریف جیسے بدعنوان دغا بازوں اور الطاف حسین جیسے بدمعاش کے بارے میں تو حقائق پر حقائق پیش کرتا رہتا ہے لیکن آپ کے بارے میں خبر تب لگتی ہے جب آپ ہاتھیوں کو بچانے کے لئے منعقد کے گۓ برٹش شاہی چیریٹی بال میں شرکت کرتے ہیں-
یہ دیکھ کر بس یہی خواہش ہوتی ہے کہ کاش گزشتہ اتوار کو پشاور کے گرجا گھر میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے جانے والے عیسائی بھی ہاتھی ہوتے!
وہ یقیناً ایک ایسی مخلوق ہیں جسے ہمارے ملک کے لوگوں کے ہوش و حواس کی طرح خطرہ لاحق ہے-
تو، کیا آپ پرنس چارلس سے درخواست کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے بھی ایک چیریٹی بال کا اہتمام کر دیں؟
شکریہ،
آپ کا مداح (ایک بدگو جنونی کے برخلاف)
-- ندیم
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (12) بند ہیں