• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

...اور کتا مر گیا

شائع October 17, 2013

فائل فوٹو --.
فوٹو -- وکی میڈیا کامنز --.

عبدل ناصر کے گھر کے پچھواڑے ایک کتا مرا ہوا ملا- پورا ایک دن گزر گیا لیکن ناصر اور اسکی فیملی نے اسے ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا-

ناصر کا کہنا تھا کہ، "یہ پلید ہے، ہندو بھنگی کو بلاؤ تاکہ اسے اٹھا کر لے جاۓ-"

"آجکل وہ بہت پیسے مانگتے ہیں، ویسے یہ کتا میرا تھا"، ناصر کے پڑوسی قربان نے کہا-

"اچھا، تو پھر آپ ہی اسے اٹھا لیں"، ناصر نے جواب دیا-

"میں ایسا نہیں کر سکتا میں بھی آپ ہی کی طرح مسلمان ہوں"۔

"تو پھر آپ نے کتا کیوں پال رکھا تھا؟"

"میں نہیں جانتا تھا کہ کتا پالنا منع ہے، مجھے یہ بات ایک ہفتہ پہلے ہی معلوم ہوئی اس وقت سے میں پچھتا رہا ہوں-"

"تو آپ نے کتے کو مار دیا؟"

"نہیں نہیں میں نے تو اسے کچھ پتھر مار کر بھگا دیا تھا"۔

ایک اور پڑوسی کامران بھی گفتگو میں شریک ہو گیا، "کیا یہ آپ کا کتا نہیں ہے قربان صاحب؟"

"جی ہاں، یہ پچھلے ہفتے تک تو تھا"۔

"کیسے مر گیا یہ؟"

"کون جانے کیسا مرا"، ناصر نے چڑ کر کہا- "یہ ایک پلید جانور ہے اور اسے مر ہی جانا چاہیے-"

"لیکن یہ تو خدا کی مخلوق میں سے ہے"، کامران نے جواب دیا-

"کتے پالنا منع ہے"، ناصر نے اعلان کیا-

"کیوں؟" کامران نے سوال کیا-

"گستاخ! تم خدا سے سوال کر رہے ہو!؟" ناصر نے پوچھا-

"کیا آپ خدا ہیں؟" کامران نے جواب دیا-

"ظاہر ہے نہیں-"

"تو پھر براۓ مہربانی سوال کا جواب دیں-"

"میں نے کتاب میں پڑھا ہے-"

"قرآن پاک میں؟"

"نہیں، ایک مذہبی عالم کی کتاب میں"

"اور آپ نے اس پر یقین کر لیا؟"

"بس مجھے پتا ہے، براۓ مہربانی  اس پلید جانور کو میری پراپرٹی سے ہٹانے میں مدد کریں- ارے کوئی بھنگی کو بلاؤ!"

اس دوران قربان نے جو، کامران اور ناصر کے درمیان ہونے والا شاندار مذہبی مکالمہ سن رہا تھا بیچ میں کودنے کا فیصلہ کیا-

"بھائیو، مجھے تو لگتا ہے اسے بلیک واٹر نے مارا ہے-"

وہ قطعاً سنجیدہ تھا-

"کیا؟"، کامران حیران رہ گیا-

"دیکھیں، اصل میں، میں اسکی شناخت تبدیل کرنا چاہ رہا تھا-"

"آپ ایک کتے کی شناخت تبدیل کرنا چاہ رہے تھے!" کامران حیران رہ گیا-

"جی ہاں، میں چاہ رہا تھا اسے تبدیل کر کے مرغا بنا دوں"، قربان نے وضاحت پیش کی-

"واہ کیا بات کی ہے! "، ناصر مسرت سے چلایا- "کیا بہترین خیال ہے، اس محلے میں ویسے بھی ایک مرغے کی ضرورت ہے جو ہمیں صبح عبادت کے لئے اٹھا سکے-"

کامران کھی کھی کرنے لگا اور بولا، "تو بجاۓ اس غریب کتے کو مرغا بنانے کہ ایک مرغا ہی لے لیا جاۓ؟ ایک کتے کو کتا اور ایک مرغے کو مرغا ہی کیوں نہ رہنے دیا جاۓ؟ اگر آپ کو کتا پسند نہیں ہے تو کیا آپ اسے مرغے میں تبدیل کردیں گے؟ کیا آپ نے کبھی کسی مرغے کو کہا ہے کتے میں تبدیل  کو؟"

السٹریشن --.

"خدا معاف کرے!!"، ناصر نے جواب دیا- "پھر تو مرغا مرتد بن جاۓ گا، اور ہمیں اسے مارنا پڑے گا-"

لیکن ہم تو پہلے ہی مرغے مارتے ہیں ان کا گوشت تو ہمیں مرغوب ہے،  نہیں؟"، کامران نے پوچھا-

"ہاں، لیکن اگر اسے ایک سچا مومن کھاۓ تو وہ مرغا سیدھا جنت میں جاۓ گا"

"اور یہ آپ کو کس نے بتایا، کسی مذہبی عالم نے؟"

"نہیں، یہ تو اصل میں مجھے میری دادی اماں نے بتایا تھا، خدا ان کو جنت نصیب فرماۓ-"

اس دوران، قربان کسی گہری سوچ میں ڈوبا اپنا سر کھجا رہا  تھا، "ناصر بھائی، اگر میں نے اپنے کتے کو مرغے میں تبدیل کر دیا ہوتا، تو کیا ہم اسے کھا سکتے تھے؟"

"ظاہر ہے قربان، ہم مرغ کھا سکتے ہیں ہمیں اس کی اجازت ہے-"

"لیکن ناصر بھائی، دیکھنے میں تو یہ ابھی بھی کتے جیسا ہی لگے گا نا، آپ میرا مطلب سمجھ رہے ہیں؟"

"نہیں، اگر اس کا لباس مناسب ہوگا تو وہ ایسا نہیں لگے گا-"

"مناسب لباس!!"، کامران کو ایک بار پھر جھٹکا لگا-

"ظاہر ہے"، ناصر نہ کہا- "ایک کتے کی شناخت تبدیل ہو جانے کے بعد ہم اسے ادھر ادھر برہنہ گھومنے کے لئے تو نہیں چھوڑ سکتے، یہ تو عریانیت ہوگی"-

"لیکن مرغے بھی تو ادھر ادھر برہنہ گھومتے ہیں"، کامران نے اعتراض کیا-

"ہاں، لیکن ایک برہنہ کتے کے جسم پر آپ کو سب کچھ نظر آجاتا ہے، جبکہ مرغے کے ساتھ ایسا نہیں ہے، وہ قدرتی طور پر حجاب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں-" ناصر نے سمجھایا-

"لیکن آپ بھی تو برہنہ ہی پیدا ہوۓ تھے، تو کیا آپ کی ماں نے آپ کو پتھر مارے تھے؟" اب کامران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا-

"آپ کیا جانیں کامران صاحب"، ناصر نے طنز کیا- "آپ مغربی لباس پہنتے ہیں، نہ آپ نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، نہ آپ کی بیگم اور بیٹیاں حجاب کرتی ہیں-"

"وہ اس لئے کیوں کہ مجھے مرغا بننے کا کوئی شوق نہیں ہے، اور نہ ہی میں اپنی بیوی اور بچیوں کو مرغی بنانا چاہتا ہوں! اس کی بجاۓ میں ایک انسان رہنے کو ترجیح دوں گا-"

السٹریشن --.

"دیکھا آپ نے کامران بھائی، یہی تو سارا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ، آپ مسلمان بننے سے پہلے انسان بننا چاہتے ہیں"، ناصر نے کہا-

"اوہ، لیکن میرے خیال سے اس کا مطلب ایک ہی ہے، کیا ایک اچھے مسلمان کو اچھا انسان بھی نہیں ہونا چاہیے؟" کامران نے ایک اور سوال کیا-

"آۓ ہاۓ!! یہ جو تمام کتابیں آپ نے پڑھی ہیں انکی وجہ سے آپ کا یہ حال ہو گیا ہے، کامران بھائی، یہ لیں اسے پڑھیں اور اپنی جڑوں کو سمجھیں-"

"یہ کیا ہے؟"

"میری دادی ماں کے لذیذ چکن برگر بنانے کی ترکیب-"

"لیکن ایک برگر کا میری جڑوں سے کیا تعلق، اور ویسے بھی کیا برگر مغربی ڈش نہیں ہے؟"

"افسوس، مغربی پروپیگنڈا کی وجہ سے آپ نے اس پر یقین کر لیا، برگر حقیقت میں بارہ سو مسلمانوں نے بنایا تھا-"

"اور آپ کو یہ کس نے بتایا، اوریہ مقبول جان نے؟"

"مجھے تو یہ سب معلوم ہونا ہی تھا، میری رگوں میں عربی خون ہے، جناب-"

"کیا لغو بات ہے"، کامران نے کہا- "آپ بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح جنوب ایشیائی ہیں جناب-"

ناصر رعب میں سر ہلاتے ہوۓ، "میرے آباؤ اجداد عرب تھے، میرے دوست، وہ جنوبی یمن میں مرغے پالا کرتے تھے-"

کامران ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے،"جی جی بالکل-"

قربان نے پھر مداخلت کی ، "لیکن بھائی اس غریب  کتے کا کیا کریں؟"

ناصر نے اسے گھورا-

قربان نے دوبارہ کہا، "میرا مطلب اس گندی، غلیظ، پلید اور ممنوع جہنمی مخلوق کا کیا کیا جاۓ؟"

"خیر، جیسا کے آپ کہہ رہے ہیں کہ اس کی شناخت تبدیل کرنا چاہ رہے تھے، میرے اندازے کے مطابق اسے بلیک واٹر نے قتل کیا ہے"، ناصر نے کہا-

قربان نے سسکی لیتے ہوے کہا، "میرا غریب مرغا مارا گیا-"

"مرغا!!"، کامران پھر حیران رہ گیا-

"رو مت"، ناصر نے سمجھایا- "وہ ایک اچھے مقصد کے لئے مرا ہے-"

"لیکن آپ تو اسے پتھر مارتے تھے قربان"، کامران نے ایک اور نکتہ اٹھایا-

"ہاں، لیکن صرف تب جب وہ پبلک کے سامنے جنسی ملاپ کرتا تھا-"

"تو ایک کتا اور کہاں جنسی ملاپ کرے گا، کیا آپ کے بیڈروم میں؟"

"خیر، اسے پبلک میں تو یہ سب نہیں کرنا چاہیے-"

"لیکن مرغے بھی تو پبلک کے سامنے جنسی ملاپ کرتے ہیں"، کامران پھر بولا-

"ہاں، لیکن ان سب کا لباس مناسب ہوتا ہے، اور وہ سب نر ہوتے ہیں"، قربان نے جواب دیا-

"کیا بکواس ہے!! اور وہ مرغیاں جن کے ساتھ یہ ملاپ کرتے ہیں؟ پبلک کے بیچ؟"

"وہ کرتے ہیں؟" اب قربان کی حیران ہونے کی باری تھی-

"کامران صرف آپ کو الجھا رہا ہے، قربان بھائی، میں آپ کو بتاؤں مرغے بالکل پاک ہوتے ہیں- یہ آفاقی قانون ہے!"، ناصر نے اعلان کیا-

"کونسا قانون؟ کس کا قانون؟ آپ کی دادی اماں کا!؟"

"زبان سنبھال کر بات کرو کامران"، ناصر کا پارہ چڑھنے لگا- "اپنی زبان درست کرو، ورنہ تمہارا انجام بھی اس کتے جیسا ہوگا- ہمیں ایسے مزید کتے نہیں چاہییں جو محلے میں برہنہ پھریں اور پبلک کے سامنے جنسی ملاپ کریں-"

قربان، ناصر کی طرف زخمی نظروں سے دیکھتے ہوۓ، "تو اس کا مطلب ناصر بھائی آپ نے میرے مرغے کو مارا؟"

ناصر کے پسینے چھوٹ گۓ، "ارر … نہیں نہیں ، تم نے خود کہا یہ انڈینز کا کام ہوگا-"

"لیکن ہمارے محلے میں تو کوئی بھی انڈین نہیں ہے"، کامران بولا-

"تو پھر ضرور یہودی ہوں گے"-

"کونسے یہودی؟"، قربان نے کہا-

"میں تمھیں بتاتا ہوں وہ بلیک واٹر والے تھے"، ناصر نے کہا- " تم خود ہی تو کہہ رہے تھے، قربان"

کامران، قربان کی پیٹھ تھپکتے ہوۓ: "بلیک واٹر نے ایک برہنہ، جنسی ملاپ کرنے والے، پلید کتے کو مارا ہے، آپ کو تو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے قربان بھائی"، کامران نے طنز کیا-

"لیکن کامران بھائی، وہ ایک مرغا بن گیا تھا"،

"وہ میں نہیں تھا!!"، ناصر چلایا- "میں نے تمہارا مرغا نہیں مارا…"-

"کونسا مرغا!! وہ تو کتا تھا"، کامران اپنے پاؤں پٹختے ہوے بولا-

"میرا غریب مرغا"، قربان مردہ کتے کو دیکھتے ہوے آہستہ سے بولا-

"میں جانتا ہوں اسے کس نے مارا"، اچانک ناصر نے اعلان کیا- اور پھر کامران کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ چلایا، "اس نے! اس نے مارا تمہارے کتے کو، میرا مطلب تمہارے مرغے کو!!"-

"کیا؟؟" کامران کو جھٹکا لگا، ایک بار پھر-

"لیکن کامران اسے کیوں مارے گا ناصر بھائی؟" قربان نے پوچھا- "یہ بھی تو مرغا ہے، میرا مطلب مسلمان ہے ہم سب کی طرح"-

"نہیں یہ نہیں ہے!"،  ناصر نے غصے سے جواب دیا- "یہ… یہ.. یہ انسان ہے!!!"-


ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Oct 17, 2013 07:24pm
بہت خوب، یہ قصہ غالب کے قصے کی طرح کا ہے. غالب سے ان کی حاضری پر انگریز نے پوچھا. ول، ٹم مسلامان؟ غالب نے جواب دیا کہ آدھا. انگریز نے پوچھا، کیا مطلب. غالب بولے، شراب پیتا ہوں لیکبن سور نہیں کہاتا. حقیقت یہی ہے کہ ہم لوگ بیکار باتوں کے مسلمان رہ گئے ہیں. ہم ایسی ٹھوس باتوں سے بہت دور ہیں جن کے کرنے سے انسانیت کی کوئی خدمت ہو سکتی ہے. ہم عید پر قربانی کو فرض سمجھتے ہیں لیکن گھر کے باہر آلائیش پھینکتے وقت ہمارا اسلام بلکل بھی ہمارے آڑے نہیں آتا. اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے.
kamran Oct 19, 2013 05:09am
aap ke urdu tarjume ki aur NFP ki insaaniat ki daad deni chahiye. NFP, aap ne wese kutte ke saath acha sulook nahi kiya
A Aleem mastoi Oct 19, 2013 07:52am
sir h hum ne to islam ko sahe tareke se jana he nahe.agar muslman me insaniat ka dard nahe to wo ek acha musalman nahe

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025