اکاؤنٹنگ کا چھٹا کلمہ
اس سال کے جنرل الیکشن سے کچھ پہلے آرٹیکل باسٹھ/تریسٹھ کا تنازعہ یاد ہے؟ یہ آرٹیکل سنہ انیس سو تہتر کے آئین کا حصّہ تھے، لیکن سنہ انیس سو پچاسی میں ضیاء الحق آمریت کے دوران، یہ مزید سخت (اور غیر یقینی) بنا دیے گۓ-
آرٹیکل باسٹھ میں پارلیمانی رکن بننے کے لئے اہلیت کا احاطہ کیا گیا ہے، جبکہ آرٹیکل تریسٹھ اس رکنیت سے نا اہل ہونے کی وجوہات کا تعین کرتا ہے-
یہ آرٹیکل کہتے ہیں کہ؛
صرف وہ لوگ جو اچھے کردار کے حامل، اچھی اخلاقی ساکھ اور بدنفسی سے آزاد ہوں، جو اسلام کے مقرر کردہ واجب فرائض کی پورے کرتے ہوں اور بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے ہوں پارلیمنٹ اور سینیٹ کے رکن بن سکتے ہیں-
تاہم، وہ یہ بتانے سے قاصر تھے کہ اچھا مسلمان کیا ہوتا ہے. اس کا فیصلہ کون کرے گا اور یہ کہ اس طرح کے فیصلے کرنے کا اہل کون ہو سکتا ہے؟
سنہ انیس سو اٹھاسی میں ضیاء الحق کے زوال کے بعد جب ملک میں جمہوریت واپس آئی تو ان آرٹیکلز کا اطلاق نہ ہو پایا-
سنہ دو ہزار تیرہ میں، امیدواروں کے ٹیکس پیپر کی جانچ کرنے کے علاوہ ریٹرننگ افسران نے انہیں انوکھے سوالوں سے بھی نوازنا شروع کر دیا-
آرٹیکل باسٹھ/تریسٹھ کے مطابق، امیدواروں کے اخلاقی کردار کی جانچ کا بھی حکم دیا گیا اور جب میڈیا نے ریٹرننگ افسران کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کی نوعیت کے بارے میں رپورٹ کرنا شروع کیا تو یہ پوری مشق بلآخر ایک قسم کے سکینڈل میں تبدیل ہو گئی-
کئی امیدواروں سے قرانی آیات کی تلاوت، نمازوں کے اوقات، چھٹا کلمہ اور حتّیٰ کہ وضو کرنے کا درست طریقہ تک پوچھا گیا-
جن سے اس طرح کے سوالات پوچھے گۓ وہ چراغ پا ہو گۓ- کیونکہ ہم پھر اسی نکتے پر آجاتے ہیں کہ ایک شخص کے اخلاقی کردار اور اسلامی سند کا فیصلہ کرنے کا اہل کون ہو سکتا ہے؟
میڈیا نے ریٹرننگ افسران کا کافی مزاق اڑایا، اور پہلی بار ملک میں آرٹیکل باسٹھ/ترسٹھ پر کھل کر بحث کی گئی-
لیکن وہ جنہوں نے سنہ انیس سو اسی کی دہائی میں سرکاری کالجوں میں تعلیم حاصل کی ہے وہ میری اس بات سے پوری طرح متفق ہوں گے کہ جو چیز سنہ دو ہزار تیرہ میں انوکھی لگ رہی ہے، اس کا ظہور کئی دہائیوں پہلے تعلیمی اداروں میں ہوا تھا-
مثال کے طور پر سنہ انیس سو تراسی میں او-لیول پاس کرنے کے بعد میں نے کراچی کے ایک بہترین سرکاری کالج میں داخلے کی درخواست دی تھی-
میرا انٹرویو کالج کے ڈین آف کامرس نے لینا تھا جن کے پاس میرے او-لیول ریزلٹ کی کاپی پہلے ہی پہنچ چکی تھی-
کالج پہنچنے پر مجھے ڈین کے آفس لے جایا گیا اور باہر انتظار کرنے کی تاکید کی گئی- میرے ساتھ تین اور سٹوڈنٹ تھے جن میں سے دو فرش کی طرف دیکھتے ہوۓ کچھ بڑبڑا رہے تھے-
میں باہر بینچ پر بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا- وہ لڑکے جو بڑی دیر سے بڑبڑا رہے تھے اچانک رک گۓ اور تیزی ایک ساتھ ڈین کے آفس کی طرف لپکے-
انہوں نے ایک اور سٹوڈنٹ کو کمرے سے باہر آتے دیکھ لیا تھا- وہ بھی دیکھنے میں تھوڑا گھبرایا ہوا لگ رہا تھا، وہ تینوں آپس میں کھسر پھسر میں لگ گۓ- میں ابھی اسی پر غور کر رہا تھا کہ یہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں کہ اتنے میں میرا بلاوا آگیا-
ڈین کا اسسٹنٹ مجھے ان کے آفس تک لے گیا-
ڈین ایک ادھیڑ عمر کے سنجیدہ مزاج انسان تھے- اپنی میز پر بیٹھے میرے ریزلٹ کا جائزہ لے رہے تھے-
"اسلام و علیکم"، میں نے نرمی کے ساتھ سلام کر کے اپنے آنے کی اطلاع دی-
"وعلیکم السلام"، جواب آیا- "بیٹھ جائیے"-
میں بیٹھ گیا- ڈین کو شہر کا بہترین اکاؤنٹنگ ٹیچر سمجھا جاتا تھا- چناچہ، مجھے یہ سن کر کوئی حیرت نہ ہوئی جب انہوں نے آہستگی سے بلآخر میرے ریزلٹ پر سے نظریں ہٹائیں اور مجھے بغور دیکھتے ہوۓ کہا، "آپ کے اکاؤنٹنگ سکور کافی مایوس کن ہیں"-
"جی سر… لیکن مجھے امید ہے کہ آپ جیسے استاد کی شاگردی میں اس میں بہتری آۓ گی-" میں نے جواب دیا-
"تاریخ اور لٹریچر میں آپ کے سکور بہترین ہیں، تو پھر آپ اکاؤنٹنگ اور کامرس میں اپنا وقت کیوں ضائع کرنا چاہتے ہیں؟" انہوں نے ایک بار پھر میرے ریزلٹ پر نظر ڈالتے ہوۓ پوچھا-
"میری والدہ چاہتی ہیں کہ میں بینکر بنوں"، میں نے جواب دیا-
انہوں نے آہستگی سے اپنا سر ہلایا- "یہ ایک سرکاری کالج ہے، آپ کے اسکول جیسا نہیں ہے، آپ یو کے یا امریکا کیوں نہیں چلے گۓ؟" سر، میرے والد اس کے متحمل نہیں ہو سکتے"، میں نے جواب دیا-
"فاروق پراچہ، ٹھیک؟"
"جی سر-"
"وہ روزنامہ جنگ کے لئے لکھا کرتے تھے… بھٹو کے حمایتی…" انہوں نے پھر اپنا سر اٹھا کر میری طرف دیکھا-
میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کندھے اچکاۓ-
"ہوں…. "، اور پھر اچانک ہی انہوں نے پوچھا، "آپ کو دوسرا کلمہ آتا ہے؟"
میں تھوڑا پریشان ہو گیا، اور جواب دینے کی کوشش کی، "میں! ..ارر"-
"دوسرا کلمہ .. آپ کو یاد ہے؟" انہوں نے دوبارہ پوچھا-
مجھے نہیں آتا تھا-
"آپ کو نہیں آتا- کیا آپ کو پہلا کلمہ آتا ہے؟"
"جی ہاں، سر"
"گھر واپس جائیں، اور دوسرا کلمہ یاد کریں، کل اسی ٹائم آکر مجھے دوسرا کلمہ سنائیں- جائیں"
میں باہر آگیا- باہر آتے ہی مجھے ان دو بڑبڑاتے ہوۓ لڑکوں نے گھیر لیا: "کیا انہوں نے آپ سے نماز ظہر کی نیت کے الفاظ پوچھے؟ "ان میں سے ایک نے سوال کیا-
"نہیں… انہوں نے نہیں پوچھا"-
اچھا تو وہ دونوں غریب نماز ظہر کی نیت یاد کر رہے تھے- لیکن کیا تمام نمازوں کی نیت کے الفاظ ایک ہی نہیں ہوتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم ڈین آف کامرس کے آفس میں کلموں اور نمازوں کی تلاوت آخر کیوں کر رہے ہیں؟
خیر، اپنی دادی جان سے دوسرا کلمہ دوبارہ یاد کرنے کے بعد میں اگلے دن ڈین کے آفس پہنچا-
اس بار ان کے سامنے کچھ امتحانی کاپیاں موجود تھیں جن کی وہ جانچ کر رہے تھے، " ہاں تو پراچہ صاحب آپ نے کلمے یاد کر لئے؟"
"جی سر، پہلا کلمہ مجھے آتا تھا، اور اب دوسرا بھی یاد کر لیا ہے، کیا میں آپ کو سناؤں؟"
"اور باقی چار؟"
"باقی چار!!؟؟"
"کیا آپ کو چھٹا کلمہ آتا ہے؟" انہوں نے اپنی نظر اٹھا کر پوچھا-
اب چونکہ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ وہ یہ سب مجھے انٹرویو میں فیل کرنے کے لئے کر رہے ہیں- تو میں نے آہستہ آھستہ اپنا دفاعی طرز عمل ترک کرنا شروع کر دیا-
"سر، ان سب چیزوں کا اکاؤنٹنگ اور کامرس سے کیا تعلق ہے؟"
"سب کچھ"، انہوں نے حتمی انداز میں جواب دیا- "کیا آپ ایک ایماندار بینکر نہیں بننا چاہتے؟"-
"سر، اس کالج میں بہت سے عیسائی سٹوڈنٹ بھی ہیں، تو کیا آپ کا کہنا یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ایماندار بینکر ثابت نہیں ہونگے؟"، میرے دل کی دھڑکنیں اب تیز ہو رہی تھیں-
جواب میں وہ واپس امتحانی کاپیاں جانچنے میں مصروف ہو گۓ، اور مجھ سے کہا،"پراچہ صاحب، براۓ مہربانی چھٹا کلمہ یاد کریں، آپ سے کل ملاقات ہوگی-"
میں اپنی جگہ سے اٹھا، اور کمرے کا دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ ایک خیال کے تحت میں نے پلٹ کر ڈین سے پوچھا، "سر کیا آپ کو چھٹا کلمہ آتا ہے؟"
وہ آہستگی سے اٹھے اور باتھ روم کی طرف جاتے ہوۓ بولے، "پراچہ صاحب، باہر جاتے ہوۓ نیچے اکاؤنٹ ڈیپارٹمنٹ سے ہوتے ہوۓ جائیے گا- وہاں فارم بھر کر فیس جمع کر دیجیے گا- میں منگل کی صبح آپ کو اپنی کلاس میں دیکھنا چاہتا ہوں-"
یہ کہہ کر وہ چلے گۓ اور میرا داخلہ ہو گیا-
اس دن سے آج تک میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ آخر اس کمرے میں ہوا کیا تھا- لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ ڈین کا رویہ، ضیاء دور میں معاشرے میں فروغ پاتے ذہنی رجحان پر ایک ہلکا سا طنز تھا-
اور یہ میں اس لئے کہہ سکتا ہوں کیوں کہ چار سال بعد جب میں کالج سے فارغ ہو رہا تھا تو ڈین کو الوداع کہنے ان کے آفس گیا-
ان کے آخری الفاظ یہ تھے،"اور پراچہ صاحب، ان تمام سالوں میں اگر یہ سوال آپ کو بار بار ستاتا ہو تو، جی نہیں، مجھے چھٹا کلمہ نہیں آتا-"
ترجمہ: ناہید اسرار