...خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا

جب بھی سابقہ فوجی آمر، جنرل پرویز مشرف کو ان کی حکومت کے دوران اسلام آباد میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے لال مسجد کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کٹہرے میں بلایا جاتا ہے، متنازعہ خیالات اور احساسات کا طوفان برپا ہو جاتا ہے-
حالانکہ اس واقعہ کو گزرے پانچ سال کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن اب بھی (میں سٹریم اور سوشل میڈیا پر) گرما گرم بحث اور جارحانہ موقف کی شروعات ہو جاتی ہے-
اس واقعہ کے مرکزی کردار عبدل رشید غازی تھے، ایک بنیاد پرست عالم جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مسجد اور اس کے مدرسے سے مسلح جارحیت پسندوں کے ایک گروہ کی قیادت کر رہے تھے-
غازی کو ایک ایسے عسکریت پسند کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے اسلام آباد میں اپنے پیروکاروں کو سی ڈی شاپس جلانے اور 'فاحشہ عورتیں' اغوا کرنے کو کہا کیونکہ وہ حکومت پر پورے پاکستان میں شرعی قانون کے نفاز کے لئے دباؤ ڈالنا چاہتا تھا-
جنرل مشرف کی حکومت کے احکامات ماننے سے انکار پر مسجد اور مدرسے پر فوج نے دھاوا بول دیا اور غازی مارا گیا-
اگر غور کیا جاۓ تو جو کچھ غازی کے بارے میں میڈیا پر کہا جاتا رہا ہے اس سے دو مختلف نظریات سامنے آتے ہیں:
پہلا اسے ایک ایسا دہشتگرد گردانتا ہے جو طاقت کے بل پر اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا چاہتا تھا، دوسرے وہ جو اسے ایک 'ملحد ریاست' کے خلاف لڑنے والا 'مجاہد' کہتے ہیں-
لیکن اکثر ہم اپنے ہیروز اور ولنز کو اس بگڑی ہوئی تصویر کی شکل میں دیکھتے ہیں جو میڈیا پر متنازعہ تصورات کی شکل میں پیش کیے جاتے ہیں- میں اکثر سوچتا ہوں کہ کبھی ان کے مطالعہ کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی جاتی، جیسا ہم اپنے ہم عصروں کے لئے کرتے ہیں-
پچھلے سال اسلام آباد میں ایک صحافی دوست نے مجھے عبدل رشید غازی کے ایک پرانے کالج کے دوست سے متعارف کرایا- بنا کسی ہچکچاہٹ کے میں نے ان سے غازی کی زندگی کے ان پہلوؤں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا جو لوگوں کی نظر سے آج تک پوشیدہ رہے ہیں-
وہ کون تھے؟ آخر کیا بات تھی جس نے انہیں اتنا مشتعل بنا دیا، وہ جنم سے تو ایسے نہیں ہونگے-
غازی کے دوست نے بتایا کہ وہ بہت مختصر عرصے کے لئے جارحیت پسند رہے، ورنہ وہ نارمل مستقبل کے عزائم کے حامل ایک انتہائی زہین انسان تھے-
"وہ دفتر خارجہ میں سفارت کار یا پھر ماہر تعلیم ہو سکتے تھے"، ان کے دوست نے مجھے بتایا-
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ غازی کی سب سے بڑی خواہش اقوام متحدہ میں سفارت کار بننا تھی- جب غازی نے انیس سو بیاسی میں کالج جوائن کیا تو انکا یہی منصوبہ تھا-
غازی ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوۓ- ان کے والد ایک عالم تھے جنہوں نے سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں لال مسجد قائم کی تھی- انہوں نے اپنے دو بیٹوں کا داخلہ ایک اسلامی مدرسے میں کروایا- لیکن غازی نے بغاوت کر دی اور مدرسہ چھوڑ دیا، ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں 'نارمل اسکول' میں ڈالا جاۓ- یہ سنہ انیس سو چھہتر کی بات ہے جو انکی نو عمری کا زمانہ تھا-
ناچار ہو کر ان کے والد نے انہیں لڑکوں کے اسکول میں داخلہ کروا دیا جہاں سے انہوں نے سنہ انیس سو اناسی میں میٹرک پاس کیا-
غازی کے دوست انہیں موسیقی، موویز اور سیاسی تاریخ کے مداح کے طور پر یاد کرتے ہیں- وہیں سے غازی نے ایک سفارت کار بننے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے تھے-
بہرحال، غازی کا ایک بار پھر اپنے والد کے ساتھ جھگڑا ہوا، ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ داڑھی رکھیں اور ان کا مدرسہ جوائن کر لیں-
غازی نے نا صرف داڑھی رکھنے اور اپنے والد کا مدرسہ جوائن کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ایک کو-ایجوکیشن کالج میں بھی داخلہ لے لیا، یہاں وہ مختلف ضیاء آمریت مخالف طلبہ گروہوں میں شامل ہو گۓ-
غازی اور ان کے والد کے درمیان تمام رابطے ختم ہوگۓ- جب سنہ انیس سو چوراسی میں غازی نے ضیاء مخالف کاروائیوں کے مرکز قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ان کے درمیان بات چیت بند ہو گئی-
انہوں نے بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم کی حیثیت سے ایم ایس سی میں داخلہ لیا، ان کے دوست کہتے ہیں کہ وہ ایک زہین طالبعلم تھے اور پروگریسو سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے مستعد ممبر تھے-
ان سب چیزوں نے غازی کے والد کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں، جنہیں ضیاء آمریت کی طرف سے پاکستان کی پشت پناہی میں سوویت یونین مخالف افغان شورش کے لئے 'جہادی' تیار کرنے کی سہولت فراہم کی جا رہی تھی-
"اپنے والد کی مسجد جانا تو دور کی بات وہ مشکل ہی سے کبھی کسی مسجد جاتے تھے"، ان کے دوست نے کہا- "وہ مارکس، میکس ویبر اور ہینری کسنجر کی تصانیف پڑھتے تھے، وہ ایک زندہ دل شخص تھا لیکن ہمیشہ سے ان کی توجہ سفارتکاری کی دنیا میں ایک بین الاقوامی شخصیت بننے کی طرف مرکوز رہی"، ان کے دوست نے مزید کہا-
لیکن غازی کے بھائی جو اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ مذہبی عالم بن گۓ تھے، غازی کو خاندانی روایتوں کو خلاف جانے اور اپنے 'مغربی خیالات اور طرز زندگی' کی وجہ سے والد کو بدنام کرنے پر لعنت ملامت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے-
تو اصل میں ہوا کیا؟
غازی کے دوست کے مطابق، بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہیں وزارت تعلیم میں ملازمت ملی-
ان کے دوست کا ماننا ہے کہ غازی اس ملازمت سے خوش نہیں تھے اور سفارت کار بننے کے خواب کو پورا کرنے کے لئے بے چین تھے-
اپنے خاندان کے ساتھ کشیدگی اور اپنا خواب جلد پورا نہ ہونے پر غازی تھوڑے چڑچڑے ہو گۓ- اور پھر سنہ انیس سو اٹھانوے میں ایک مخالف عسکری تنظیم کے حکم پر ان کے والد کو قتل کر دیا گیا-
"وہ احساس جرم جو قطرہ قطرہ بن کر ان کے دل میں جمع ہو رہا تھا باہر آگیا"، غازی کے دوست نے وضاحت دی، "غازی کے بھائی نے انہیں بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کو دکھ پنہچایا ہے"-
غازی ڈپریشن میں چلے گۓ اور انہوں نے مختلف اسلامی تبلیغی گروہوں کے جلسوں میں جانا شروع کر دیا-
پھر، سنہ انیس سو نناوے میں انہوں نے اپنے بھائی کو لال مسجد میں جوائن کر لیا، جہاں وہ دونوں لیڈر بن گۓ-
جب پاکستان 'دہشتگردی کے خلاف جنگ ' میں امریکا کا ساتھی بنا تو کہا جاتا ہے کہ دونوں بھائیوں نے اسلامی عسکری تنظیموں کے ساتھ رابطے قائم کر لئے-
غازی بالکل 'بدل' گۓ تھے- انہوں نے اپنا سیکولر ماضی بھلا دیا، داڑھی رکھ لی اور ایک سرگرم جارحیت پسند بن گۓ جس کا اصرار تھا کہ ریاست پاکستان سخت شرعی قوانین کا نفاز کرے-
ان کے دوست نے ایک اور دلچسپ بات کہی، "وہ لڑنے کے لئے نہیں بنے تھے- نہ ہی جہادی- ان کا فلسفہ ضرور جارحانہ ہو گیا تھا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس کے لئے جان دینے کو تیار تھے-"
یہ بیان کسی حد تک درست لگتا ہے- لال مسجد کے جارحیت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران، کچھ ٹی وی چینلز پر یہ رپورٹ آئی کہ غازی سررینڈر کرنا چاہتے ہیں، لیکن چند صف اول پر موجود عسکریت پسندوں نے انہیں (جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعہ) یرغمال بنا رکھا ہے، بعد ازاں فوج اندر داخل ہو گئی اور ان سب کو گولی مار دی گئی-
عجیب بات ہے کہ یہ شخص جو ایک بین الاقوامی سفارتکار بننا چاہتا تھا، ایک ایسے مقصد اور نظریے کے لئے مارا گیا جسے وہ اپنی زندگی کے بیشتر حصّے میں مسترد کرتا رہا تھا-
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (1) بند ہیں