پروٹوکولز آف دی ایلڈرس آف زآئن
گزشتہ ہفتہ آخرکار میں نے وہ بدنام زمانۂ کتاب پڑھ لی جو"پروٹوکولز آف دی ایلڈرس آف زآئن" کے نام سے مشہور ہے- لیکن مجھے اسے پڑھنے میں لطف اس لئے نہیں آیا کہ یہ کتاب سازشی عنصر کے خلاف ایک غیر ارادی طنزیہ ہے بلکہ اس لئے کہ یہ کتاب ارادتا لوگوں کو فریب دینے اور جعل سازی کے ذریعہ ان کے جذبات و تعصبات سے فایدہ اٹھانے کے لئے لکھی گئی ہے.
اس کتاب میں (جو پہلی مرتبہ روس میں 1890 میں شایع ہوئی) مجوزہ طور پر ایک ایسے اجلاس کی کارروائی کو بیان کیا گیا ہے جس کے شرکاء میں طاقتور یہودی اور فری میسن شامل تھے جس میں انہوں نے اس بات پر غوروفکر کیا تھا کہ دنیا پر کس طرح غلبہ حاصل کیا جاۓ-
تقریبا سو سال کے اس عرصے میں " پروٹوکولز " کو سازشی نظریہ دانوں میں ایک بائبل کی سی اہمیت حاصل ہو گئی، باوجود اس حقیقت کے کہ اس کتاب کے متن کو متعدد بار غلط ثابت کیا جا چکا ہے اور یہ کہ اس کی حثییت سراسر من گھڑت کے علاوہ اور کچھ نہیں.
یہ کتاب غالبا سازشی نظریات اور "نظریہ دانوں" کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے- پچھلی دہایوں میں اگرچہ یورپ کے مختلف ممالک میں اسے قطعی طور پر مسترد کر دیا گیا اور اس کا مذاق اڑایا گیا لیکن مختلف مسلم ممالک میں اس کتاب کو جس کی حیثیت ایک مزاحیہ سازشی ڈرامے کے علاوہ کچھ اور نہیں عربی، انگریزی، ترکی، ملائی اور اردو میں آج بھی شایع کیا جا رہا ہے.
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ 1970 تک سعودی بادشاہ شاہ فیصل اپنے مہمانوں کو یہ کتاب تحفتا بصد شوق دیا کرتے تھے- ان میں سے بیشتر ایڈیشن پاکستان میں (جس کے اخراجات سعودیہ نے برداشت کئے) شایع ہوۓ اور بعد ازاں انھیں مختلف عرب ممالک کو برآمد کیا گیا- تاہم ، اس کتاب کا اردو ترجمہ 1977 کے بعد سے نظرآنے لگا -
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی اور عرب مسلمان، جن کا خیال ہے کہ اس کتاب میں ایک ایسے اجلاس کی کارروائی کا احوال درج ہے جو واقعی منعقد ہوا تھا، اس ڈرامائی کتاب کی اشاعت کی تاریخ سے یا تو بالکل واقف نہیں یا اگر واقف بھی ہیں تو بہت کم.
یہ لوگ یا ان میں سے بیشتر اس کتاب کی تاریخ کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ دوسری صورت میں اس دعوی کی قلعی کھل جائگی کہ یہ کتاب واقعی ایک حقیقی منصوبہ کو ظاہر کرتی ہے-
جب بیشتر پاکستانی اور عرب سازشوں پر یقین رکھنے والے نظریہ دان اس کتاب کے بعض حصوں کو تازہ ترین بنا کرعجلت میں پیش کرتے ہیں تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ صیہونی اور ان کے مغربی اتحادی مسلمانوں کے خلاف کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں تو وہ اس کتاب کے اس حصے کو فراموش کر دیتے ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی اس کتاب کے روسی مصنف میتھیو گولوونسکی نے پہلی مرتبہ یہ کتاب کن حالات میں لکھی تھی .
گولوونسکی نے اس کتاب کا خیال فرانس کے بعض قدامت پسند مصنفین اور شاہ پسندوں سے مستعار لیا تھا جو ایسی کتابیں لکھ رہے تھے جس میں فری میسنوں اور ایلومناٹی عقیدے کے پیروکاروں پر یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس کی حمایت کر رہے تھے جس نے فرانسیسی شہنشاہیت کا تختہ الٹ دیا تھا اور (کچھ عرصے کیلئے) مذہب کا خاتمہ کر دیا تھا 1890 میں گولوونسکی نے ان نظریات کو مستعارلیا اور ایلومناٹی کی جگہ یہودیوں کو دیدی اورانھیں ایک عالمگیر سازش کا مرکزی نقطہ بنا دیا جو فری میسن کی مدد سے ساری دنیا کو فتح کرنا چاہتے تھے.
فرانسیسی مصنفین کے ناموں کو حوالوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ----- ہاں آج بھی سازشی نظریہ دان ایک دوسرے کی تصانیف کو حوالوں کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ----- یہ کہ گولوونسکی نے یہودیوں اور فری میسن کے مشترکہ اجلاس کا حال بیان کیا ہے جس میں انہوں نے پریس، بینک اورعدلیہ کو اپنے کنٹرول میں لینےکا منصوبہ بنایا تھا تاکہ وہ انقلابی / لادینی نظریات (سوشل ازم، لبرل ازم اور جمہوریت) کو مسلط کرکے یورپ میں عیسائیت کو نقصان پہنچا سکیں .
1920 تک پروٹوکولز ایک ایسی کتاب تھی جسے عیسائی بنیادپرست اور شاہ پرستوں کے گروہ لہراتے پھرتے تھے کیونکہ وہ عقلیت پسندی کے دور(ایج آف ریزن)، سائنسی ترقی، سیکولر ڈیموکریسی اور کمیونزم جیسے سیاسی اور سماجی ادوار کے اثرات سے گھبراتے تھے.
بالفاظ دیگر، اس کتاب کا حوالہ ان گروہوں کی جانب سے دیا جاتا تھا جو شاہ پرستوں کے بتدریج خاتمے اور انیسویں صدی کے بعد سے یورپ میں چرچ کے گھٹتے ہوے اثر کے سبب نظریاتی اور سیاسی اہمیت کھو بیٹھے تھے.
بجاۓ اس کے کہ یورپ میں اٹھارویں صدی کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیوں اور سیاسی، سائنسسی اور معاشی انقلابات کا بغور مطالعہ کیا جاتا اور انھیں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ان گروہوں نے جو اپنا اثرورسوخ کھو بیٹھے تھے بلا جھجھک یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ سب یہودیوں اور فری میسن کے ایجنٹوں کی کارستانیاں تھیں .
لیکن ابھی اس کتاب کی اصلیت پر گہری ضربیں پڑ ہی رہی تھیں کہ امریکہ کے ایک طاقتور اور قدامت پسند صنعت کار نے امریکہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پروٹوکولز کو ایک نئی زندگی بخشی .
١٩٢٢میں امریکہ میں کار بنانے والی ایک کمپنی کے مالک ھنری فورڈ نے اپنے ایک اخبار میں اس کتاب کی قسط وار اشاعت شروع کر دی تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ یہودی ان تارکین وطن مزدوروں کو جو سوشلسٹ اور کمیونسٹ ہیں فیکٹریوں میں امریکی پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی کام کرنے کی اخلاقیات کو گھٹانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں-
لطف کی بات یہ کہ فورڈ خود فری میسن تھا چنانچہ اس نے بڑی ہوشیاری سے کتاب کے ان حصوں کو خارج کر دیا تھا جن میں فری میسن کا ذکر تھا-
اس کتاب کو بعد ازاں "دی انٹرنیشنل جیو" کے نام سے قسط وار شایع کیا گیا جو جرمنی جیسے ممالک میں جہاں کی معیشت پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد بری طرح متاثر ہوئی تھی ، بہت مقبول ہوئی-
دی انٹرنیشنل جیو ہی وہ کتاب ہے جو اڈولف ہٹلر کے نازی فلسفے کی بنیاد بنی- اس نے اس کتاب کو اپنی حکومت کی یہود-دشمن پالیسی کو جائز قرار دینے کے لئے استعمال کیا جو بالاخر یہودیوں کے قتل عام (ہولوکاسٹ ) میں منتج ہوئی-
ہٹلر کے نزدیک پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی معاشی تباہی اور ذلت کا سبب جرمنی کی فوجی مہم جوئی نہ تھی بلکہ اسکی وجہ یہودی اور انکے ایجنٹ تھے، یعنی بینکرز، ڈیموکریٹس اور کمیونسٹ -
دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کی شکست کے بعد پروٹوکولز اور اسکی تازہ شکل دی انٹرنیشنل جیو کو مسلم ممالک میں خصوصا وہاں جہاں عرب شاہوں اور آمروں کی حکومت تھی، قارئیں کی ایک نئی جماعت مل گئی-
جب فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی یہودی ریاست (1948) کے قیام کے بارے میں عرب ممالک کے عوام نے سوال اٹھانا شروع کیا تو بہت سے عرب حکمرانوں نے اس کے جواب میں دی انٹرنیشنل جیو کے ترجمہ کی کتابیں دکانوں، جراید، اخبار حتی کہ اسکولوں تک میں پھیلاد یں-
مسلم حکومتوں نے، بجاۓ اس کے کہ خود اپنی زوال پذیر خاندانی سیاست پر نظر ڈالتے اپنی ناکامیوں کا سبب ان پیچیدہ اور شیطانی منصوبوں کو قرار دیا جو دنیا کی طاقتور صیہونی / یہودی طاقتیں عالم اسلام کے خلاف کر رہی تھیں-
تو یہ ہے وہ مقام جہاں سے جدید ترین سازش پرست نظریہ داں مسلم ممالک میں داخل ہو رہے ہیں اور جدید قدامت پسند (نیو کونز) اور' انٹرنیشنل بینکرز' جیسی تازہ ترین اصطلاحوں کو اپنی لغت میں شامل کررہے ہیں-
جس چیز کی ابتدا 1890 میں یہودیوں اور فری میسن کے درمیان ایک خیالی میٹنگ کے ادبی فرضی ڈرامے سے ہوئی تھی جسکا مقصد عیسائیت کا خاتمہ کرنا اور سیکولر ڈیموکریسی اور سوشلزم کی مدد سے یورپ میں خدا کی طرف سے عطا کردہ شہنشاہیت کا خاتمہ کرنا تھا، صیہونیوں، بدکار سائنسدانوں اور مغرب کے سرمایہ داروں کا اجلاس بن گئی جو مسلمانوں کو محکوم بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے-
آج، خصوصا 9/11 کے بعد اس نے طاقتور فوجی افسروں، سیاستدانوں، میڈیا کے مالکوں، بینکرز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بورڈروم میٹنگوں کی شکل اختیار کر لی ہے جن کی لگام مزید چالاک و عیار یہودیوں اوران کے مغربی اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے جو مسلمانوں کو محکوم بنانے کے درپے ہیں ------- پروٹوکولز کی محض شکلیں بدل رہی ہیں-
اور پروٹوکولز کی ان بدلتی ہوئی شکلوں کے بارے میں بات ہو رہی ہو تو آپ کو بتادوں کہ برطانوی ٹی وی کی ایک سابقہ شخصیت ڈیوڈ آیک جنکا شمار مقبول ترین کتابوں (بیسٹ سیلرز) کے مصنفوں میں ہوتا ہے پروٹوکولز کی روزبروز بدلتی ہوئی شکل کو ایک عجیب وغریب موڑ دیا ہے-
انہیں یقیں ہے کہ یہ کتاب یہودیوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بیرونی خلا سے آنے والے قوی الجثہ رینگنے والے جانوروں کے بارے میں ہے جو مردوں اور عورتوں کے بھیس میں معاشی، فوجی اور سیاسی اقتدار کے ایوانوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور ہماری زمین پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں-
ڈیوڈ آیک اپنی اس بات پر سنجیدہ ہیں --- اور ان کے وہ پاکستانی شایقین بھی --- جنھیں آپ ٹی وی کے اہم چینلوں پر مبصرین اور سیاسی شعبدہ بازوں کی شکل میں با قاعدگی سے تبصرہ کرتے ہوے سنتے ہیں-
آپ کو حیرت بدنداں ہونے کی قطعی ضرورت نہیں اگر ان میں سے کوئی آپکو بارہ فٹ لمبا رینگنے والا جانور قرار دیدے جسے موساد سے یا سی آ ئی اے کے بیس سے، جو ورجینیا یا یروشلم میں نہیں بلکہ سیارہ صیہون میں ہے، ٹیلی پیتھی کے ذریعہ سگنل مل رہے ہوں -
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: سیدہ صالحہ
تبصرے (3) بند ہیں