عورت اور برقع
گزشتہ ہفتے ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کراچی جناح انٹرنیشنل ایرپورٹ کے باہر واقع ایک بڑے فاسٹ فوڈ ریستوراں کے سامنے میں نے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تین مختلف خاندانوں کو کھڑے دیکھا جن کے ساتھ ان کی کمسن بیٹیاں اپنے ننھے منے سروں کو حجاب میں لپیٹے کھڑی تھیں۔ ان لڑکیوں کی عمریں چار سال سے زیادہ نہیں تھیں۔ برقعہ ملبوس ان بچیوں کی ماییں بھی ساتھ کھڑی تھیں۔
اتنی کمسن بچیوں کو حجاب اوڑھے دیکھ کر ایک سوال میرے ذہن میں ابھرا: کیا وجہ تھی کہ والدین نے اپنی بچیوں کو حجاب میں ڈھانکنے کا فیصلہ کیا؟
ذرا سوچئے: کیا ان والدین کا یہ خیال تھا کہ حجاب کے بغیر ان ننھی منی لڑکیوں پر مردوں کی گندی نظریں پڑینگی؟ یہ خیال ہی خاصا پریشان کن تھا۔ اگرچہ میں چاہتا تھا کہ ان کے پاس جاؤں اور ان سے پوچھوں لیکن میری ہمت نہ پڑی۔
میرا تعلق خود ایک ایسے بڑے گھرانے سے ہے جسکی بہت سی عورتیں برقع پہننا پسند کرتی ہیں چنانچہ، مجھے کئی مواقع ملے کہ میں ان حجاب کرنے والی اور برقع پہننے والی خواتین سے تبادلہ خیال کروں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کروں۔ پاکستان کے شہروں میں متوسط طبقہ کی عورتیں حجاب یا برقع پہننے لگی ہیں اور اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہی۔ گزشتہ پچیس برسوں میں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ یہ شہروں میں نچلے متوسط طبقہ اور متوسط طبقہ میں بڑھتی ہوئی سماجی اور مذہبی قدامت پسندی کی علامت ہے مگر اس موضوع پر نہ تو کوئی خاص غور و فکر کیا گیا ہے اور نہ ہی اظہار خیال.
یہ فیصلہ کس نے کیا ہے کہ عورتوں کو حجاب یا برقع پہننا چاہئے؟
اس کا جواب پانے کے لئے میں پروفیسر صدف احمد کی نادر تحقیق اور تصنیف کا سہارا لونگا جو اسلامی مبلغ فرحت ہاشمی کی الہدیٰ تنظیم کے بارے میں ہے اور دوسرے خود اپنے مشاہدات پر بھروسہ کرونگا جس کا تجربہ مجھے اس زمانے میں ہوا جب میں اپنی ان رشتہ دار لڑکیوں کے ساتھ پرورش پا رہا تھا جو اب برقع پہننے لگی ہیں۔
جو خواتین بہت پرانی وضع کے برقع پہنتی ہیں وہ اس لئے کہ یہ ان کے خاندان کی روایت ہے (جیسا کہ میرے گھرانے میں ہوتا ہے)۔
اگرچہ اس روایت کو عورتیں اپنی مرضی سے قبول کرتی ہیں لیکن اس کی اہمیت پر زور بڑی حد تک خاندان کے مردوں کی جانب سے دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف یوں محسوس ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ کی جن نوجوان لڑکیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے خود اپنی مرضی سے کیا ہے۔
فی الحقیقت ایسے واقعات کی مثالیں ملتی ہیں (بلکہ بعض کا ذکر تو احمد کی تحقیقی کتاب میں بھی ہے) جن کے مطابق الہدیٰ اور بعض دیگر اسلامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والی عورتیں اپنے عادات و اطوار اور عقاید میں (اپنی مرضی سے) اس حد تک قدامت پسند ہو گئی ہیں کہ خود اپنے والدین کے لئے بھی مسئلہ بن گئی ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر نوجوان لڑکیوں کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جہاں عورتوں میں اسلامی لباس پہننے کی روایت نہیں ہے۔
مثلا احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ الہدیٰ سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون نے انھیں بتایا کہ انھیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ انکی والدہ کی عمر کی خواتین (انیس سو سترکی دہائی میں) کس قسم کا لباس پہنتی تھیں۔
اسلام سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور غیر مذہبی سکالرز، دونوں ہی کا خیال ہے کہ قران شریف میں عورتوں کے لباس سے متعلق جو آیات ہیں انکی تفسیر و تشریح مختلف طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے معروف اسلامی محققین اور مصنفین ایسے موجود ہیں مثلا ضیاءالدین سردار، ارشاد مانجی، محمد ارقون، رضا اسلان بلکہ اکبر ایس احمد بھی جو قدرے محتاط ہیں اس خیال کے حامل ہیں کہ جدید حجاب اور برقع پر جو عمل ہو رہا ہے وہ بڑی حد تک اسی روایت کا تسلسل ہے جسے مردوں کی ہدایت پر شروع کیا گیا تھا۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ برقع پہننے کا رواج ان قوانین اور سماجی روایات کا نتیجہ ہے جنہیں گزشتہ چند صدیوں میں ججوں، مذہبی پیشواؤں اور قانون سازوں نے نافذ کیا تھا جو سب کے سب مرد تھے۔
لیکن یہاں میرے غور و فکر کا موضوع اس مسئلہ کا مذہبی پہلو نہیں ہے، کیونکہ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی نچلے متوسط طبقہ اور متوسط طبقہ کی عورتوں میں اس کی بڑی وجہ اہم معاشی اور غیر مذہبی اسباب بھی ہیں۔
حجاب اور برقع دونوں ہی مذہبی سے زیادہ ایک سماجی مظہر ہے اور یہ سرکشی کے برعکس مدافعتی نوعیت کا حامل ہے۔
یہ خاص طور پر ایسے سماج میں نمایاں نظر آتا ہے (مثلا پاکستان) جہاں کسی کے کردار کو عمل کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا بلکہ اس بنیاد پر پرکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص ارکان مذھب پر کس حد تک عمل کرتا ہے جس میں اب اسلامی لباس کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
مثلا ایک حجاب پہننے والی عورت جب ٓج کے دور میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتی ہے تو اس کا حجاب اس بات کی علامت بن جاتا ہے کہ اس نے اس غیر اخلاقی ماحول میں اپنی اسلامی شناخت کھوئی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ سجھتی ہے کہ اگر وہ غیر مذہبی ماحول میں حجاب نہیں پہنے گی تو اس صورت میں اس کے اخلاقی کردار کو زیادہ سختی سے پرکھا جائیگا (خاص طور پرمردوں کی جانب سے)۔
میرے خیال میں اس کے یہاں حجاب پہننے کی وجہ دفاعی نوعیت کی ہے، لیکن اگر اس سے پوچھا جائے تو وہ یہی کہےگی کہ اسے پہن کر وہ خود کو آزاد اور مذہبی اقدار کا پابند محسوس کرتی ہے۔
اس کی معاشی وجوہات بھی ہیں لیکن انکا تعلق ان عورتوں سے زیادہ ہے جو برقع پہننے کو ترجیح دیتی ہیں۔
انیس سو اسی سے پہلے کی دہائیوں میں پاکستانیوں کی اکثریت ان خیالات کی حامل تھی جن کا براہ راست تعلق اس علاقے کی صوفی خانقاہوں کے کلچر سے تھا جو ہر رنگ و نسل و عقیدہ کی ہزاروں سال پرانی سانجھ اور تال میل سے بنا تھا اور رواداری کا حامل تھا لیکن اس میں تبدیلی انیس سو ستر کی دہائی کے اواخر اور اس کے بعد رونما ہونے لگی جب پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے نوکریوں کی تلاش میں تیل سے مالا مال عرب دیسوں کی طرف اڑنا شروع کیا .
ان ممالک سے پاکستا ن واپس آنے والوں یا پیسہ بھیجنے والوں نے پاکستان کے پہلے نودولتیوں کو جنم دیا۔
ان عرب ممالک سے نہ صرف انہوں نے دنیاوی دولت کمائی بلکہ ان کا براہ راست واسطہ ان مذہبی عقائد سے پڑا جو باقی دنیا کے مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔
اب جو یہ پاکستانی نیی دولت کماکر واپس اپنے دیس پدھارے تو انہوں نے فورا ہی اپنے پرانے عقاید کو اتار پھینکا اور اسکی جگہ زیادہ کٹر عقاید کا لباس اوڑھ لیا جن سے عرب ممالک میں انکا واسطہ ہوا تھا۔
دراصل انکے پرانے عقاید جن میں وہ پیدا ہوئے تھے انہیں اپنے حقیر ماضی کی یاد دلاتے تھے۔ یہ نئے عقاید انکی نئی حاصل کردہ معاشی خوشحالی اور مرتبے کی علامت تھے۔
پاکستان میں شہری متوسط طبقہ کی عورتوں میں برقع پہننا (خاص طور پر جس قسم کا برقع تیل سے مالامال عرب ممالک میں پہنا جاتا ہے) مالی طور پر بڑھیا نظر آنے کی کوشش تھی کہ ان کے شوہروں یا بھائیوں نے تیل کی دولت والےعرب ملکوں میں ٹھیک ٹھاک مال بنایا تھا اور یہ دکھاوا کرسکتی تھیں کہ وہ مالی لحاظ سے اعلی مرتبہ پر فائز ہیں۔
اس کا ایک اور اظہار ان تبدیلیوں سے بھی ہوتا ہے جو برقع کے ساتھ ساتھ اس کے لوازمات میں بھی ہوا ہے جیسے تھیلے نما ہینڈ بیگ جو چمکیلے، سنہری یا بھڑکیلے رنگوں میں ہوتے ہیں۔
دراصل سٹایل کے ساتھ "شرم و حیا" کا یہ مہنگا نظارہ پہلے کبھی دکھایی نہیں دیا تھا جسے کمسن لڑکیوں پر مسلط کر دیا گیا جنہوں نے شاید اس 'ڈورا' کو بھی ٹھکرا دیا ہے جو سر کو حجاب سے چھپائے بغیر کسی 'ڈیگو' کے ساتھ دوڑتی پھرتی ہے۔
ندیم ایف پراچہ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: سیدہ صالحہ
تبصرے (17) بند ہیں