آئیے بات کریں

قابلِ تعظیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد (خاص طور پر موٹرسائیکل مالکان)، اتنے ہی قابلِ تعظیم صحافیوں اور رہنماؤں جیسے کہ شہباز شاہین شریف، جِم خان، منصورہ حسین اور کسی بلّو نامی شخص کے کافی جائز دباؤ کی وجہ سے آخرکار پاکستانی حکومت نے شمالی وزیرستان میں سرگرم انتہاپسند اور عسکریت پسند تنظیموں کے کارکنان سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بلکہ کہا جارہا ہے کہ انتہا پسندوں اور حکومت کے بیچ ایک امن معاہدے پر دستخط بھی کئے جا چکے ہیں۔ یہ معاہدہ دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے کئی مرحلوں اور کینو کے ایسے جوس کے کئی گلاسوں کے بعد سامنے آیا جسے تیار کرنے والی کمپنی کے مالکان ملحدین میں سے نہیں ہیں۔
معاہدے کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
- وزیرستان پریمئر کرکٹ لیگ (ڈبلیو پی ایل) میں شرعی اصولوں سے ہم آہنگ ایل بی ڈبلیو کے کڑے قواعدو ضوابط لاگو کئے جائینگے اور تمام چیئر لیڈرز بکریاں ہونگی۔
- پاکستانی فوج رفتہ رفتہ خطے سے واپس آجائیگی تاکہ وہ پلٹ کر وہی کام کرسکے جو وہ سب سے احسن طریقے سے کرتی ہے یعنی گالف کھیلنا۔
- حکومت اور انتہاپسند آپس میں قیدیوں اور تحائف کا تبادلہ کرینگے۔ حکومت کی جانب سے انتہا پسندوں کو سنگسار عباسی تحفے میں پیش کئے جائینگے جن کی آواز اور خاص طور پر جن کے عمومی رونے میں موجود ایک خاص رومانوی اداسی کی جوان کھنک کے وہ دلدادہ نظر آتے ہیں، جبکہ انتہاپسند حکومت کو کسی بلّو نامی شخص کا تن سے جدا کیا ہوا سر تحفہ میں پیش کرینگے۔
- انتہا پسند نائی اورموسیقی کی دکانوں اور بچیوں کے اسکولوں پر حملے بند کر کے ساؤنا، ڈسکو اور خواتین کے ڈرائیونگ اسکولوں جیسے مقامات پر حملے کرینگے۔ البتہ چونکہ پاکستان میں کوئی ڈسکو یا ساؤنا موجود نہیں ہے لہٰذا انکی کچھ تعداد حکومت خود تعمیر کرائیگی تاکہ وہ انہیں بم سے اڑا سکیں۔
- انتہا پسند اور خاص طور پر خود کش بمبار اسلحے کی سرِعام نمائش نہیں کر سکتے۔ بمباروں کو اب خصوصی طور پر تیار کئے گئے گد ے کی دیواروں والے غاروں میں پھٹنا ہوگا۔
- انتہا پسند اب سوائے رقص کی تربیت کے کسی قسم کے تربیتی کیمپس بھی نہیں چلاسکیں گے۔
- انتہاپسند خودکش حملوں کی مذمت کرینگے۔ البتہ وہ مذہب کے نام پر دل کے دورے پڑواسکتے ہیں۔
- نجی سپاہ یا مسلح گروہ تیار کرنے پر پابندی ہوگی مگر سرِعام کوڑے مارنے کی اجازت ہوگی۔ کوڑے مارے جانے کو ٹی وی پر براہ راست دکھانے اور ساتھ ہی لاہور میں منعقد ہونے والی حالیہ دنوں میں ختم ہوئی ایشین کبڈی چیمپئن شپ کے دوران ٹی وی چینلوں پر استعمال ہوئے کمنٹیٹرز فراہم کرنے پر حکومت رضامند ہوگئی ہے۔
- پولیو سے بچاؤ کیلئے بچوں کو قطرے پلانے میں انتہا پسند حکومت سے تعاون کرینگے خا ص طور پر پہاڑی پولیو کی اس قسم کیخلاف کہ جس میں سر درد کے ساتھ نظر کے دھوکے ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، حکومت اب دہشت گردی کا مقابلہ بندوق کی گولیوں سے نہیں بلکہ سر درد کی گولیوں سے کریگی۔
- خطے میں صرف لائسنس یافتہ ایف ایم ریڈیو چینلز کو نشریات کی اجازت ہوگی البتہ انتہا پسند اپنی مرضی کے آر جے چن سکتے ہیں۔
- انتہا پسند وں کی جانب سے وزیرستان کی بکریوں کو انکے کام کی جگہوں پر اپنے فرائض بنا کسی خوف کے سر انجام دینے کی اجازت ہوگی۔ البتہ خطے کی عورتوں کو اس آسائش کیلئے انتظار کرنا ہوگا۔ انتہا پسندوں کی ترجیحات میں انکا مقام کافی نیچے ہے یعنی مردوں، خودکش لڑکوں، مردوں، بکریوں، اور مزید مردوں سے 38 درجے نیچے۔
- حکومت ڈرون طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود میں داخل نہیں ہونے دیگی۔ اس مقصد کیلئے وہ نئے ٹریفک سگنلزاور تقریباً 200 ٹریفک کانسٹیبلوں کو شمالی وزیرستان بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انتہا پسندوں سے اسی قسم کا ایک معاہدہ 2008 میں بھی کیا گیا تھا۔مگر عسکریت پسندوں نے فوراً وعدہ خلافی کرتے ہوئے پولیس اسٹیشنوں پر حملے اور شرعی اصولوں سے ہم آہنگ ایل بی ڈبلیو کے کڑے قواعدو ضوابط زبردستی لاگو کرنا شروع کردئے تھے۔ انتہا پسندوں نے اسکا ذمہ دار لال مسجد پر جامنی رنگ کرنے کے حکومتی منصوبے کو ٹھہر ایا تھا۔انہیں جامنی رنگ سے نفر ت ہے۔
تاریخی لحاظ سے، افغانی انتہا پسند تنظیمیں پاکستانی انتہا پسندوں کی نظریاتی گرو ہیں جو چینی انتہاپسندوں کے نظریاتی گرو ہیں اوروہ لگزمبرگ کے انتہاپسندوں کے نظریاتی گرو ہیں اور یہ مریخ کے انتہا پسندوں کے گرو ہیں جو فلاں کے نظریاتی گرو ہیں اوروہ فلاں کے۔
اس بات کی یاد دہانی کرانا جائز ہے کہ پاکستانی انتہا پسند گروہوں نے دس ہزار سے زائد جنگجو افغانستان بھیجے تھے تاکہ وہ ڈارتھ ویڈر اور اسکی بدکار فوج کا 2001: اے اسپیس اوڈیسی میں مقابلہ کر سکیں جسکا سرور ہی الگ تھا۔ یعنی مدہوشی جیسا۔
حکومت پاکستانی انتہا پسندوں کے رہنما لیوک بن اسکائی واکر سے بھی معاہدہ کرنے والی ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ لیوک بن اس بے رحم خودکش حملے میں ملوث ہیں جس نے میاں نواز شریف کے نئے نویلے مصنوعی بال اڑا دئے تھے۔
البتہ، شریف نے وزیر داخلہ رحمان وانکا پر الزام لگایا جس کے بعد پی ایم ایل (این) کے مشتعل ورکروں نے جناب وانکا کی چاکلیٹ فیکٹری کے باہر ایک بے ہنگم دھرنا دیا۔ دھرنے کو ختم کرنے کیلئے وانکا نے اپنی فیکٹری کے ارد گرد موبائل سروس معطل کردی تھی۔
کرکٹر سے سیاستدان اور سیاستدان سے شلجم بننے والے اور کچھ انتہا پسندوں کو بولنگ میں ریورس سوئنگ کا فن سکھانے والے جم خان اس امن معاہدے سے ناخوش ہیں۔
معاہدے سے اختلاف کرتے ہوئے جم خان نے موجودہ حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کی اور کہا کہ انکا 2008 کے انتخابا ت کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا کیونکہ نتائج میں خون، بم، بال ٹمپرنگ اور رحمان وانکا کے علاوہ کچھ سامنے نہیں آیا۔
اسکے بعد وہ اپنی جماعت کے ورکروں کیساتھ (فیس بک پر)حکومت کیخلاف مارچ کرنے (ٹوئٹرپر) نکل پڑے تاکہ اسلام آباد میں موجود سفارتی حلقے میں جرگہ کا نظام قائم کیا جاسکے۔
یہ سن کر صدر زرداری نے اپنے چینی ہم منسب کے ساتھ کینو کا جوس پیتے ہوئے کہا: میں کہتا ہوں وانگ ٹانگ کہ صرف یہ کہنا کہ اس بندے کو پتا ہی نہیں وہ کیا کر رہا ہے، ذرّہ برابر بھی کافی نہیں۔ اسکے جواب میں انکے چینی ہم منصب نے جو کہا وہ کسی کی سمجھ نہیں آیا مگر فردوس عاشق اعوان کی ضد تھی کہ انہوں نے جو کہا اسکا مطلب تھا: ہاں، جانِ من، ہاں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے کی شرائط میں انتہا پسندوں سے سرحد پار افغانستان میں حملے روکنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ ایسا نہیں کہ افغانستان میں حملہ کرنے کیلئے کچھ باقی رہا ہے ہا ں مگر شاید کچھ جامنی رنگ کے کھنڈر موجود ہیں۔ انہیں جامنی رنگ سے نفرت ہے۔
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: شعیب فاروقی
تبصرے (1) بند ہیں