...آخر اس کا مطلب کیا

مجھے یقین ہے کہ جب تک یہ کالم ان صفحات پر ظاہر ہوگا 11 مئی کو ہونے والا انتخابات کے حیرت انگیز نتائج پر بہت کچھ کہا، لکھا اور کھوج لگایا جا چکا ہوگا-
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ، افسوس، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا جتنا مبالغہ اور افراتفری پھیلانے میں مؤثر ہے اتنا یہ ووٹنگ کے رجحان پر اثر انداز نہیں ہو سکا جتنا اس سے امید کی جا رہی تھی-
اگر کسی کو سماجی میڈیا پر پی ٹی آئ کے سونامی کی تشہیر پر یقین تھا، تو جیسے ہی یہ بات واضح ہوئی کہ مسلم لیگ-نون اپنے تمام مخالفین کو پچھاڑ دے گا، خاص کر پنجاب میں، تو وہ بس ٹوتٹر اور فیس بک پر بےربط اور بے معنی لفاظی ہی کرتا رہ گیا-
پی ٹی آئ نے پنجاب میں صرف پی ایم ایل-نون سے ہی بری طرح شکست نہیں کھائی بلکہ وہ پی پی پی سے بھی زیادہ نشستیں نہیں لے پائی- ایک ایسی پارٹی جس کو ٹی ٹی پی کی دھمکیوں اور حملوں کی وجہ سے کونے میں دبکنا پڑ گیا، اورحکومت میں بدنظم اور بے ترتیب پانچ سال گزارنے کے بعد انتخابات میں انتہائی بدنام پارٹی کی حیثیت سے آئ-
اور سندھ میں جہاں الیکٹرانک میڈیا کے مطابق پی ایم ایل ایف اور سندھ نیشنلسٹ جو پی پی پی کی روایتی برتری کا تختہ الٹنے والے تھے، وہ پی پی پی کی جیت کی رفتار میں ہلکی سی رکاوٹ بھی نہ ڈال پاۓ اور بڑے آرام سے ناکام ہو گئے اور پی پی پی علاقے میں قومی اور صوبائی نشستوں پر بڑے آرام کے ساتھ کامیابی حاصل کر گئی-
خیر، الیکٹرانک میڈیا کی سندھ کے دارالحکومت کراچی کی بڑی پارٹی ایم کیو ایم کی کامیابی کی پیشن گوئی بلکل ٹھیک تھی- یہ پارٹی کراچی میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے میں کامیاب رہی جبکہ پی ٹی آئ نے اس پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی لگاۓ-
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کوئی کراچی سے ایم کیو ایم کے حاصل کردہ ووٹوں کا ایک ٹکڑا لے بھی جاۓ تب بھی یہ کراچی میں جیت جاۓ گی- وہ جو کراچی سے باہر رہتے ہیں یا پھر وہ لوگ جو شہر کے گنجان آباد علاقوں سے دور ہیں، انہیں کراچی میں اور حیدرآباد کے کچھ حصّوں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت کے درمیان اس پارٹی کی الجھی ہوئی اور خلاف قیاس نوعیت کی انتخابی مقبولیت کو ابھی سمجھنا ہے-
ایم کیوایم کو کراچی میں بلند مرتبہ مڈل کلاس نظریوں، اخلاقیات اور جھنڈے والی حب الوطنی سے نہیں ہرایا جا سکتا- نہ ہی جیسا ایم کیو ایم کے ووٹروں کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ سب شہر کے اردو بولنے والوں کے اقتصادی اور سیاسی دلچسپیوں کو بدلنے کا ذریعہ یا بہانہ ہیں، یہ نہ وہاں کے گٹر کھول سکتے ہیں، نہ بجلی کی تاریں ٹھیک کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ڈیفنس اور کلفٹن کے شاپنگ مال اور ٹھنڈی خوبصورت شاہراہوں سے دور موجود علاقوں میں پانی کی مستقل فراہمی ممکن بنا سکتے ہیں-
مسلم لیگ-نون کی پنجاب میں شاندار کامیابی سے الگ، انتخابات کی ایک اور دلچسپ بات یہ کہ پی ٹی آئ نے کس طرح خیبر پختون خواہ میں بھاری اکثریت حاصل کر کے اپنے لئے عزت حاصل کی-
میڈیا نے خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی طرف اشارہ تو کیا تھا، لیکن انتخابی مہم کے آخری چند ہفتوں میں جب صوبے کی مقتدر پارٹی اے این پی پر انتہا پسندوں کے بے رحمانہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو میڈیا نے یہ خیال ظاہر کیا اے این پی کو ہمدردی کی بنیاد پر فائدہ حاصل ہوگا-
ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور پی ٹی آئ نے خیبر پختون خواہ میں سب سے زیادہ نشتیں لے کر پارٹی کا بری طرح صفایا کر دیا-
لیکن میرے لئے سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ خیبر پختوں خواہ کے پشاور اور پنجاب کے راولپنڈی میں کس طرح ووٹ ڈالے گئے- یہ دونوں شہر پی ٹی آئ کی طرف گئے-
1970 اور 1977 کے انتخابات میں راولپنڈی میں بائیں بازو کی لبرل پی پی پی کی جیت ہوئی تھی- 1988 میں اس نے پی پی پی اور قدامت پسند جے یو آئ کے درمیان واضح فیصلہ دیا تھا، 1990 کی پوری دہائی میں پی ایم ایل این کی گود میں گرنے سے پہلے-
پی پی پی 2002 اور 2008 میں یہاں سے کچھ نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو تو گئی تھی لیکن اس سال کے الیکشن تک راولپنڈی پر پورا قبضہ پی ایم ایل این کا ہی رہا-
مئی 11 کو پی ٹی آئ نے یہاں پی ایم ایل این کی برتری ختم کر دی اور مزے کی بات یہ کہ یہ سب اسی الیکشن میں ہوا جس میں پی ایم ایل این نے پورے پنجاب میں کامیابی حاصل کی!
پشاور جہاں پی تی آئ نے 11 مئی کو صفایا کر دیا، الیکشن کے حوالے سے اور زیادہ ہی موڈی شہر ثابت ہوا- 1970 میں یہاں کی نشتیں بائیں بازو کی این اے پی اور دائیں بازو کی جے یو آئ کے درمیان بٹ گئی تھیں-
1988 اور 1997 کے درمیان یہ نشستیں پی پی پی اور اے این پی کے پاس چلی گئیں تھیں لیکن 2002 کے انتخابات میں مکمل طور پر مذہبی دائیں بازو کے اتحاد ایم ایم اے کے پاس چلی گئیں-
2008 میں پشاور نے دوبارہ اپنی اصلاح کی اور غیر مذہبی پی پی پی اور اے این پی کو دوبارہ ووٹ دیا صرف اس لئے کہ 2013 میں ان دونوں کو بھگا کر اپنی چاروں نشستیں پی ٹی آئی کو دے دیں-
کچھ مشاہدین کا یا ماننا ہے کہ راولپنڈی میں ووٹنگ نظریات کی بنیاد پر ہوتی ہے- 1990 سے پنجاب کی بائیں سے دائیں طرف منتقلی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں- پشاور کا ووٹنگ رجحان، شہر کی عملی نوعیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، جہاں اس کے سنگدل پشتون اور ہندکو ووٹر بائیں یا دائیں بازو کی پارٹی کے لئےصرف ان کی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں-
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اورڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (1) بند ہیں