افسوسناک فیصلہ
ایسے وقت کہ جب علماء سے توقع تھی کہ وہ کشیدگی میں کمی کی خاطر اپنا کردار ادا کریں گے، دفاعِ پاکستان کونسل کی جانب سے جمعہ کو یومِ احتجاج منانے کی توثیق افسوسناک فیصلہ ہے۔
دفاعِ پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے پیر کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راولپنڈی سانحہ میں 'غیرملکی ہاتھ' دیکھا اور اس المناک واقعے کی منصفانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کردیا لیکن اگلی ہی سانس میں انہوں نے اہلِ سُنت والجماعت کی جانب سے جمعہ کو ہڑتال کے اعلان کی بھی حمایت کردی۔
اب یہ واضح نہیں کہ ہڑتال کیا رخ اختیار کرتی ہے خاص طور پر نمازِ جمعہ کے پُرہجوم اجتماعات کے بعد، کیا یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مقصد آگے لے کر بڑھتی ہے یا پھر راولپنڈی سانحہ کے پسِ پردہ، سچ کی تلاش کرنے والی تحقیقاتی کمیٹی کے واسطے معاون ثابت ہوگی۔
ہم بلوچستان کی بات نہیں کرتے لیکن فاٹا کے طالبان سے لے کر کراچی میں خطرناک زیرِ زمین جرائم پیشہ گروہوں تک، پاکستانی ان سب کے خوف کے سائے تلے اپنی زندگیاں گذار رہے ہیں اورجہاں تک حکومتی عمل داری کا تعلق ہے تو وہ روز بہ روز محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہے۔
عاشورہ تصادم راولپنڈی تک محدود نہیں رہا، یہ دوسرے شہروں تک بھی پھیل رہا ہے۔ لگتا ہے جیسے پوری قوم آتشگیر مادّے سے بھرے ایک ڈبّے کے اندر بند کی جاچکی۔ ایسی صورتِ حال میں مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ایک گروہ کی جانب سے ملک بھر میں ہڑتال جلتی پر تیل چھڑکنے کےمترادف ہوگی۔
افسوس کہ دفاعِ پاکستان کونسل اپنے نام کی طرح سامنے نہیں آئی۔ یہ نام تو ملک کے 'دفاع' کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ کیا ایک ایسے وقت میں ملک گیر سطح پر ہڑتال ان کے مقاصد پورا کرتی ہے؟
اختلافِ رائے آئین میں دیا گیا حق ہے اور دفاعِ پاکستان کونسل کے رہنماؤں کو اپنا یہ حق استعمال کرنے کا بھی پورا اختیار حاصل ہے لیکن ان کشیدہ حالات میں، انہیں اپنے اس حق کے استعمال سے اجتناب ہی برتنا چاہیے۔
اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھنے سے پہلے دفاعِ پاکستان کونسل کو دوبارہ سوچنا چاہیے؛ خود حکومت کو بھی سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ ایک دانشمندانہ قدم نہیں ہے۔