سات سو چھپن کلومیٹر کا دشوار اور کٹھن احتجاجی مارچ
کراچی: بلوچستان کے لاپتہ افراد کے خاندانوں کے احتجاجی افراد پر مشتمل قافلہ پچیس دنوں اور سات سو چھپن کلومیٹر پر پھیلے دشوار اور کٹھن پیدل سفر کے بعد جمعہ بائیس نومبر کو کراچی پریس کلب پہنچ گیا۔
مارچ کے شرکاء نے پچھلی رات کو گڈاپ ٹاؤن کے یوسف گوٹھ میں قیام کیا تھا۔
کوئٹہ پریس کلب سے ستائیس اکتوبر کو شروع ہونے والا یہ لانگ مارچ ابتداء میں صرف لاپتہ افراد کے گھرانوں کے افراد پر مشتمل تھا۔ لیکن کراچی پہنچنے کے بعد اس میں حب، ملیر، مواچھ گوٹھ اورلیاری کے بلوچ خواتین، حضرات اور بچوں بڑی تعداد لیاری کے آٹھ چوک سے شامل ہوگئی، یوں سو افراد کے اس قافلے کے شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔
اس کے علاوہ نوجوان رضاکار بھی اس مارچ میں حب سے شامل ہوئے، جن میں سے کچھ موٹرسائیکلوں پر تھے اور کچھ پیدل اور کچھ نے اپنے چہرے رومال سے ڈھانپے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے ڈان کو بتایا کہ ایسا انہوں نے اس وجہ سے کیا تھا کہ لاپتہ بلوچ افراد کی تنظیم ”وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز“ کے وائس پریزیڈنٹ قدیر بلوچ کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
لاپتہ افراد کے خاندانوں کے قافلے کی کراچی پریس کلب آمد سے ایک گھنٹہ پہلے، دو نوجوان ایک احتجاجی کیمپ تیار کرنے میں مصروف تھے، انہوں نے اس کیمپ کو لاپتہ افراد کی تصاویر سے آراستہ کیا۔ نزدیک ہی ملیر سے آنے والی ایک خاتون اپنی مٹھی میں اپنے گمشدہ بھائی کی پاسپورٹ سائز تصویر لیے بیٹھی تھیں، ان کا بھائی اسی سال بائیس مئی کو شاہراہ فیصل سے لاپتہ ہوگیا تھا۔
ان کا بھائی شکیل حیدر ایک ٹیکنیشن تھا، صرف ایک رات میں ہی غائب ہوگیا۔ وہ خاتون پُرامید تھیں کہ پریس کلب پر میڈیا کی موجودگی میں ہوسکتا ہے کہ ان کے بھائی کو ڈھونڈنے میں کوئی مدد مل سکے۔
اس کے علاوہ کالعدم جیے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) کے اراکین بھی ”مغوی کارکنان“ اور ”ہمارے بلوچ بھائی“ کے ساتھ یکجہتی کے نعرے لگاتے دیکھے گئے۔
تاہم جلد ہی لانگ مارچ کے شرکاء اور ان کے ہمراہ نوجوانوں کا یہ قافلہ ایم آر کیانی روڈ پر شاہین کمپلیکس پہنچنا شروع ہوگیا تو لانگ مارچ کے منتظمین میں شامل ایک خاتون نے سیاسی کارکنوں سے کہا کہ وہ اپنی سیاسی جماعتوں کے جھنڈے ایک طرح رکھ دیں۔ انہوں نے مائیکروفون پر اعلان کیا کہ ”یہ سیاسی جلسہ نہیں ہے۔یہاں ہم کسی سیاسی بیان سننے کے لیے جمع نہیں ہوئے ہیں۔“
جب لانگ مارچ کے شرکاء کراچی پریس کلب پہنچے تو ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی گئیں، جبکہ کراچی پریس کلب کے اراکین نے ان کو ہار اور اجرک پہنا کر ان کا استقبال کیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے اراکین بھی لاپتہ افراد کے خاندان کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔
تھکن سے بے حال دکھائی دینے والے قدیر بلوچ، جنہیں اب بہت سے لوگ پیار سے ”ماما“ کہہ کر پکارتے ہیں، مشکل سے چند منٹ کے لیے بات کرنے کے لیے دستیاب ہوسکے۔
لیکن جیسے ہی انہیں کافی قوت مل گئی، انہوں نے کہا کہ ”میں نہ کبھی خود کو فروخت کروں گا یا نہ ہی اپنے مقصدپر سمجھوتہ کروں گا۔یہاں کچھ لوگ ہیں جو فون پر مجھ سے میری قیمت پوچھتے ہیں۔ میں ان سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ احتجاج جلد ہی کسی وقت ختم نہیں ہونے جارہا ہے۔“
وزیراعلٰی بلوچستان بھی تنقید کی زد میں آئے:
بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او-آزاد) کے سینئیر عہدے دار ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید بھی ماما قدیر کے ساتھ کھڑی تھیں، انہوں نے کہا کہ ”یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلٰی عبدالمالک بلوچ نے ایک ٹی وی پروگرام پر بات کرتے ہوئے لانگ مارچ کو ایک ”وقتی مارچ“ قرار دیا تھا۔“
”میں ان سے صرف اتنا ہی پوچھنا چاہوں گی: کیا آپ یہی کچھ محسوس کرتے تھے، جب آپ کوئٹہ میں ہمارے کیمپ اپنے لیے ووٹ مانگنے آئے تھے؟“
پریس کلب کے اردگرد بالکل بھی افراتفری نہیں تھی، اس لیے کہ ہر ایک یہاں ان خاندانوں کو ان کے صبر اور اتحاد پر خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا تھا۔
جس وقت پریس کلب کے اندر قدیر بلوچ کراچی تک کے پیدل سفر کے بارے میں بتارہے تھے کہ انہیں اس دوران کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے کہا کہ ”میرے پیروں میں پڑے آبلے اس وقت بھی تکلیف دے رہے ہیں۔ میں مارچ میں شامل ان خواتین کا شکرگزار ہوں، جنہوں نے میرے اندر اس کام کی جرأت پیدا کی، اور آگے بڑھنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔“
انہوں نے بتایا کہ لانگ مارچ میں شریک خاندانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق رہے۔ ”جیسا کہ ہم بات کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ہمارے کارکنوں میں سے ایک اپنے گھر پر ہی قیدیوں کی مانند چھپ کر بیٹھا ہے، اس لیے کہ اس کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر وہ لانگ مارچ میں شریک ہوتا ہے تو اسے جان سے ماردیا جائے گا۔“
انہوں نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی جان لینے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”حب سے آتے ہوئے راستے میں ایک کار نے تین مرتبہ مجھے مارنے کی کوشش کی، اس کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کی کہ لانگ مارچ کے شرکاء تتر بتر ہوجائیں۔
قدیر بلوچ نے ایک مرتبہ پھر وزیراعلٰی کے ریمارکس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کو ”مصیبتوں پر بے حسی کی ایک مثال“ قرار دیا۔
انہوں نے نیشنل پارٹی کے ایک رہنما سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کے حالیہ بیان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صوبے میں کوئی مسخ شدہ لاش نہیں پائی گئی ہے۔ ”میں انہیں آگاہ کرتا ہوں کہ صرف تین دن پہلے ہم نے دو بلوچ طالبعلموں کی لاشیں وصول کی ہیں۔“
قدیر بلوچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے پانچ سال مقابلتاً مشرف کے دور سے بھی بدتر تھے۔ ”مشرف کے دورِ حکومت کے دوران لاپتہ ہونے والے افراد ایک یا دو سال کے اندر اپنے گھرواپس آجاتےتھے۔ لیکن گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ہمیں صرف مسخ شدہ لاشیں موصول ہوئی ہیں، جنہیں صوبے کے تمام اطراف میں پھینک دیا گیا تھا۔“
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے کردار کے حوالے سے وزیراعلٰی نے غیر منصافانہ طور پر الزام عائد کیا۔ ”میں نے کسی بھی نیوز چینل پر ایسا کچھ نہیں کہا۔ اس کے بجائے میں نے حال ہی میں کہا تھا کہ لانگ مارچ کا انعقاد لاپتہ افراد کے خاندان کا جمہوری حق ہے۔ انہوں نے شاید مجھے (ماما قدیر کو) غلط سمجھا ہے۔“
”کراچی سے کوئٹہ تک جن لوگوں نے مارچ میں حصہ لیا، میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے خاندان کے افراد ہیں۔“
لاپتہ افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ان کی حتمی تعداد موجود نہیں ہے جس کا آپ کے سامنے حوالہ دیا جاسکے“، لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ وہ لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
لانگ مارچ میں شامل لاپتہ افراد کے خاندان ہفتے سے کراچی پریس کلب کے ساتھ احتجاجی کیمپ میں بیٹھنا شروع کردیں گے۔ قدیر بلوچ نے کہا کہ وہ لاپتہ افراد کے معاملے پر ایک یا دو دن کے اندر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔