بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات۔ پولنگ کا اختتام
تازہ ترین اپ ڈیٹس
کوئٹہ: بلوچستان میں لوکل باڈیز انتخابات کے بعد پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہوگیا اور اب پولنگ اسٹیشنز میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
اس سے قبل خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا تھا اور یہ واقعہ ضلع نوشکی میں پیش آیا تھا لیکن بعد میں ضلعی انتظامیہ کی مداخلت پر خواتین کو ووٹ ڈالنے دیئے گئے۔
صوبے کے بعض متاثرہ علاقوں میں پولنگ بہت تاخیر سے شروع ہوئی کیونکہ پولنگ اسٹیشنز پر ضروری سامان نہ پہنچ سکا اور لوگوں کو ایک ووٹ ڈالنے کیلئے کئ گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑا۔
خضدار کی تحصیل باغبانہ میں دو گروہوں میں تصادم کے بعد پولنگ روک دی گئی ۔ حب میں ایک اور واقعے میں چار افراد زخمی ہوئے ۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے ہڑتال اور الیکشن کے بائیکاٹ کے موقع پر صوبے کے کئی حصوں میں پہیہ جام اور ہڑتال ہوئی۔
پولنگ کے موقع پر صوبے بھر میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جنہیں گزشتہ روز ہی حتمی شکل دے دی گئی تھی۔
بلدیاتی انتخابات میں صوبے بھر سے تقریباً 32 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز میں سے لوگوں نے ووٹ ڈالے۔
پولنگ کے دوران بلوچستان کے ضلع نوشکی میں خواتین کو ووٹر ڈالنے کی سے روکا گیا جس پر خواتین نے احتجاج کیا۔
مقامی لوگوں اور ایک لیویز اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ضلع نوشکی کے علاقے غریب آباد میں واقع وارڈ نمبر تین میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا جہاں پر خواتین کی بڑی تعداد اپنے حق رائے دہی ستعمال کرنے کے لیے موجود تھی۔
اس واقعہ کی خبر میڈیا پر نشر ہونے کے بعد اسٹنٹ کمشنر نوشکی محمد یونس سنجرانی خواتین کے پولنگ اسٹیشن کا دورہ کیا اور انہیں ووٹ ڈالنے کی یقین دہانی کروائی۔
دوسری جانب صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں پولنگ کا سامان نہ ہونے کے باعث ووٹرز کو کئی گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔
ادھر ضلع ہرانی کے 82 پولنگ اسٹیشنوں پر سیاسی جماعتوں کے ضلعی انتظامیہ کے خلاف دھرنے کی وجہ سے پولنگ کا عمل ابھی تک شروع نہیں ہوسکا ہے۔
ایک مقامی صحافی محمد حنیف ترین جو خود بھی ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن گئے تھے، فون پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ صبح سے اب تک کسی نے بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں سے ضلعی ڈپٹی کمشنر ہرانی کے خلاف سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلع ہرانی کے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن میں مرد و خواتین بھی شامل ہیں، لیکن سیاسی جماعتیں انہیں اپنے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔
اس ہی طرح ضلع مستونگ، مچ، قعلہ عبداللہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں پولنگ کا عمل تین گھنٹے تاخیر کے ساتھ شروع ہوا۔
مستونگ میں واقع لڑکیوں کے ایک سرکاری اسکول میں قائم کیے گئے پولنگ اسٹیشن پر خواتین نے تین گھنٹوں تک انتظار کیا جس کے بعد وہاں پولنگ کا عمل شروع ہوا۔
ایک لیویز اہلکار منیر احمد نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پولنگ اسٹیشن کے باہر خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
دوسری جانب مکران سمیت صوبے بلوچستان کے وسطی اور مشرقی علاقوں میں بلوچ علیحدگی پسند گروپس اور قوم پرست جماعتوں کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔
ڈان اخبار
ان بلدیاتی انتخابات میں بہت سی رکاوٹوں کے علاوہ کچھ جماعتوں کی طرف ووٹرز کو پولنگ بوتھس سے دور رہنے کی اپیل اور کچھ بلا مقابلہ امیدواروں کے اغوا جیسے واقعات کے باوجود صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی عمل جاری رکھنے اور صوبے کے عوام کی توقعات پر پورا اُترنے کے لیے پُرعزم ہے۔
آج ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر صوبائی حکومت نے صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا تھا، جبکہ اس دوران سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ صوبے میں دفعہ 144 کے تحت موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے جو دس دسمبر تک نافذالعمل رہے گی۔
لیکشن کمیشن کے سیکریٹری اشتیاق احمد خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کو آزادانہ اور شفاف بنانے کے لیے تمام انتظامات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔
انہوں نے یہ بات انتظامات کا مجموعی جائرہ لینے کے لیے منعقدہ ایک اجلاس کے بعد گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس اجلاس کی صدارت قائم مقام چیف الیکشن کمیشن جسٹس ناصرالملک نے کی۔
جلاس کے دوران بلوچستان کے چیف سیکریٹری بابر یعقوب فاتح محمد اور صوبائی الیکشن کمیشنر سید سلطان بایزید نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کیے جانے والے انتظامات پر قائم مقام چیف الیکشن کمیشن کو بریفنگ دی۔
پریس کانفرنس میں اشتیاق احمد نے کہا کہ صوبے کے چار ہزار چھ سو حلقوں میں اٹھارہ ہزار امیدوار حصہ لے رہے ہیں، جبکہ 32 اضلاع میں ساٹھ لاکھ بیلیٹ پیپرز بھیج دیے گئےہیں۔
انہوں نے کہا کہ پانچ ہزار آٹھ سو پولنگ اسٹیشنوں پر عملے کے لیے تینتیس ہزار افراد کا تقرر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے دوران سیکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے فوج، ایف سی، بلوچستان کانسٹیبلری، پولیس، اور لیویز فورسز کے چون ہزار سے زائد اہلکار پولنگ اسٹیشنوں کے اطراف تعینات کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ انتہائی حساس مقامات پر پانچ ہزار سے زائد فوجی اہلکار کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں گے، جبکہ پولنگ کے عمل کی فضائی نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹرز کی بھی مدد لی جائے گی۔
انہوں نے صوبائی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ تاریخ پر ہورہے ہیں۔