چھٹی مردم شماری
اطلاعات سے اشارے ملتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے طویل عرصے سے تاخیر کا شکار، چھٹی مردم شماری کرانے کی ہدایات دے دی ہیں۔ نگرانی اور منصوبہ بندی کا خاکہ تشکیل دینے کے لیے، مصدقہ اعداد و شمار نہ ہونے کے باعث متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے، ایسے میں فیصلہ قابلِ ستائش ہے۔
نہ صرف وسائل کی منصفانہ تقسیم بلکہ قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں بھی درست نمائندگی کی خاطر ضروری ہے کہ پاکستان کے پاس ملکی آبادی کے درست ترین اعداد و شمارموجود ہوں۔
مردم شماری آئینی ضرورت ہے اور اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد پر کی جاتی ہیں اور اسی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نشستیں مختص ہوتی ہیں۔ یہ صوبے کے اندر اور بین الصوبائی حرکیات (ڈائنامکس) پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
بڑے پیمانے پر اندرونِ ملک ہونے والی نقل مکانی کا مطلب ہے کہ یہ سن اُنیّس سو اٹھانوے میں ہونے والی آخری مردم شماری کے اعداد و شمار کو قابلِ غور حد تک بدل چکی، جس کا سرکاری اعداد و شمار میں بھی ضرور اظہار ہونا چاہیے۔
متعدد اسباب کی بنا پر اگر آبادی کے تناسب میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تو قومی اسمبلی میں صوبوں کے لیے اور صوبائی اسمبلی کے لیے ضلع کی سطح پر، مختص نشستوں کی تعداد پر لازمی اثر پڑتا ہے۔ کیا جمہوریت کے لیے لازم، نگرانی (گورنس) صرف اندازے کی بنیاد پر ہونی چاہیے؟
مردم شماری کے لیے ابتدائی عمل خانہ شماری ہے لیکن بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کی ساکھ پراٹھائے گئے اعتراضات کے بعد، سن دو ہزار گیارہ میں خانہ شماری کا عمل ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہمیں امید ہے کہ یہ غلطی، جس کا نتیجہ بہت زیادہ وقت، کوششوں اور پیسے کے زیاں کی صورت میں نکلا تھا، اس مرتبہ نہیں دہرائی جائے گی، عمل زیادہ شفاف ہوگا۔
ملک میں مردم شماری کی تفصیلات کو مشترکہ مفادات کونسل کے اگلے اجلاس میں حتمی شکل دی جائے گی۔ امید ہے کہ کونسل کا اجلاس جلد ہوگا اور اگر اس ضمن میں وفاق اور صوبوں کے درمیان یا خود صوبوں کے اپنے درمیان، کچھ اعتراضات ہوں گے تو انہیں بات چیت کے ذریعے جلد حل کرلیا جائے تاکہ مردم شماری میں مزید تاخیر کا جواز پیدا نہ ہوسکے۔
اس حوالے سے، خاص طور پر فاٹا، بلوچستان اور کراچی کے بعض علاقوں میں سیکیورٹی بدستور اہم مسئلہ ہے۔ ریاست کو چاہیے ہوگا کہ اس حوالے سے ضروری اقدامات کرے اور مردم شماری کرنے والے عملے کی یقینی حفاظت کے لیے بھی سیکیورٹی کا مناسب بندوبست ہو۔
پاکستان کے حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور خود عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ آبادی پر مشتمل اعداد و شمار کی حقیقت تسلیم کریں اور اس عمل کو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر، بھٹی میں نہ جھونکیں۔