• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm

بنگلہ دیش: پولیس، اپوزیشن مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں

شائع December 29, 2013
اتور کو  'جمہوریت کے لیے مارچ' کے نام پر سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین ڈھاکا میں اپوزیشن جماعت کے صدر دفتر اور دیگر مقامات پر جمع ہونے کی کوششوں میں پولیس سے ٹکرائے۔
رائترز فوٹو۔۔۔
اتور کو 'جمہوریت کے لیے مارچ' کے نام پر سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین ڈھاکا میں اپوزیشن جماعت کے صدر دفتر اور دیگر مقامات پر جمع ہونے کی کوششوں میں پولیس سے ٹکرائے۔ رائترز فوٹو۔۔۔

ڈھاکا: بنگلہ دیش میں پولیس اور حزب اختلاف کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

اتور کو 'جمہوریت کے لیے مارچ' کے نام پر سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین ڈھاکا میں اپوزیشن جماعت کے صدر دفتر اور دیگر مقامات پر جمع ہونے کی کوششوں میں پولیس سے ٹکرائے۔

پولیس نے آئندہ مہینے عام الیکشن ملتوی کرانے کے لیے احتجاج کرنے والوں پر تیز دھار پانی پھینکنے کے ساتھ ساتھ فائرنگ کا سہارا بھی لیا۔

ڈھاکا پولیس کے ترجمان مسعود الرحمان نے بتایا کہ تقریباً گیارہ ہزار پولیس اہلکاروں اور ایلیٹ ریپڈ ایکشن کے افسران غیر قانونی مارچ کو روکنے کے لیے دارالحکومت میں گشت کر رہے ہیں۔

پولیس نے 'حفاظتی اقدامات' کے طور پر ایک ہزار سے زائد اپوزیشن مظاہرین کو حراست میں لے لیا ہے جبکہ حکام نے ڈھاکا آنے والی بس، کشتی اور ٹرین سروس بھی معطل کر دی ہے۔

حکومت کے اس اقدام سے ڈھاکا ملک کے دوسرے شہروں سے عملاً کٹ کر رہ گیا ہے۔

اے ایف پی کے رپورٹر نے بتایا کہ پولیس نے نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرین پرتیز دھار سے پانی پھینکا۔

دوسری جانب، نواحی رام پورہ میں دو سو سے زائد مظاہرین نے پولیس پر چھوٹے بم پھینکے، جس پر جھڑپوں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

نائب پولیس کمشنر نور عالم صدیقی کے مطابق، انہوں نے درجنوں چھوٹے بم پھینکنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شاٹ گن سے فائرنگ کی۔

ان کا کہنا تھا جھڑپوں میں زخمی ہونے والے شخص کو ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔

خیال رہے کہ مرکزی اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش قومی پارٹی (بی این پی) اور اس کی اتحادی جماعتیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے کئی ہفتوں میں پرتشدد مظاہرے، ہڑتالیں اور ٹرانسپورٹ نظام معطل کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔

اس پرتشدد احتجاج میں اب تک درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اپوزیشن کا مطالبہ ہے پانچ جنوری کو شیڈول عام انتخابات نگران حکومت کے تحت کرائے جائیں تاکہ ماضی کی طرح دھاندلی نہ ہو سکے۔

بی این پی کی سربراہ اور دو مرتبہ سابق وزیر اعظم رہنے والے خالدہ ضیاء نے اپنے حامیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اتوار کو مارچ پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈھاکا میں جمع ہوں۔

پولیس کو خدشہ ہے کہ ریلی کی صورت میں مزید خون خرابہ ہو سکتا ہے۔

پولیس ترجمان رحمان نے کہا کہ مارچ سے پہلے گرفتاریوں کا مقصد تشدد اور سبوتاژ کو روکنا ہے۔

'ہم نے بی این پی کو مارچ کی اجازت نہیں دی، لہذا اگر کوئی بھی بی این پی کے صدر دفتر کے باہر جمع ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا'۔

مقامی ٹی وی پر چلنے والی فوٹیج میں بی این پی کے صدر دفتر کے باہر، جہاں آج خالدہ ضیا نے ریلی سے خطاب کرنا ہے، پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے مناظر دکھائے جا رہے ہیں

اسی طرح حکمران جماعت کے لاٹھی بردار کارکن بھی پریس کلب کے باہر اپوزیشن مظاہرین کے ساتھ لڑنے میں مصروف نظر آئے۔

اب تک یہ واضح نہیں کہ آیا خالدہ ضیا ریلی میں شامل ہو سکیں گی کہ نہیں ، کیونکہ بی این پی کے حامیوں نے حکومت پر سابق وزیر اعظم کو بدھ سے گھر میں نظر بند رکھنے کا الزام لگایا ہے۔

ریت سے بھرے پانچ ٹرک خالدہ ضیا کے گھر کے باہر کھڑے ہیں تاکہ وہ اپنے گھر سے نہ نکل سکیں۔

حکومت نے اپوزیشن کی ریلی کو غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ نائب وزیر قانون قمر الاسلام نے حکمران پارٹی کے حامیوں پر زور دیا ہے کہ وہ احتجاج کا مقابلہ 'لاٹھیوں' سے کریں۔

پولیس اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں نے مارچ سے پہلے اپوزیشن حامیوں کو گرفتار کرنے کے غرض سے ملک بھر میں چھاپے مارنے کے ساتھ ساتھ ٹرینوں اور بسوں کی بھی تلاشی لینے کے علاوہ ڈھاکا شہر کے داخلی رستوں پر خصوصی چیک پوسٹیں بھی قائم کی ہیں۔

حسینہ واجد نے اپوزیشن مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

غیر ملکوں اور اداروں کی جانب سے اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کے بعد آئندہ عام الیکشن کی ساکھ کو مزید دھچکا پہنچا ہے۔

حسینہ واجد کی عوامی لیگ ان انتخابات میں اپنی کامیابی کے حوالے سے پر اعتماد ہے، لیکن اپنی مختصر تاریخ میں دو درجن کے قریب بغاوتوں کا سامنے کرنے والے ملک میں ان انتخابات کے بعد سیاسی خلیج میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔

الیکشن سے جڑے احتجاج اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم سے متعلق عدالتی کارروائی کے خلاف مظاہروں کے نتیجے میں رواں سال اب تک 273 لوگ مارے جا چکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 نومبر 2024
کارٹون : 7 نومبر 2024