• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

!خالہ ہوشیار باش

شائع January 14, 2014 اپ ڈیٹ January 15, 2014
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

اصلیت میں، ہیرو ازم / خدائی فوجداری (vigilantism) ایک ایسے پراسرار نجات دہندہ کا عوامی اور مسیحیائی تصور ہے جو ظالم معاشرے میں انصاف کا علم بردار بن کر عوام ہی کے بیچ سے ابھرتا ہے-

ایسے کردار حقیقت میں اصلی زندگی کی بہ نسبت فرضی داستانوں، موویز، کہانیوں اور کومکس میں زیادہ پاۓ جاتے ہیں جہاں یہ ہیرو قانون کو ہاتھ میں لے کر سوسائٹی کو کالی بھیڑوں سے پاک کر دیتے ہیں-

پھر بھی بعض لوگ معاشرے کے ٹھیکیدار بننے کی کوشش کرتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں کیوں کہ ظاہر ہے زندگی کوئی مووی نہیں ہے-

بہرحال، کئی`سیاست دانوں اور ملٹری ڈکٹیٹروں نے ہیرو ازم کا مقبول اور تخیلاتی لبادہ اوڑھ کر خود کو جدید دور کا مسیحا اور نجات دہندہ بنا کر پیش کیا کیونکہ کشمکش میں گرفتار معاشرے انہیں آسانی سے قبول کر لیتے تھے-

لیکن سابقہ اٹالین فاشسٹ مسولنی اور جرمن نازی سپر مین اڈولف ہٹلر کی طرح، عام طور پر ایسے افراد عظیم ہیرو سے تبدیل ہو کر مکروہ بدہیت مخلوق بن جاتے ہیں اور اپنے ہی واہموں کے جنوں اور خون میں ڈوب کر ختم ہو جاتے ہیں، اور وہی عوام جو کبھی بڑی عقیدت کے ساتھ انکی پرستش کرتی تھی ان سے نفرت کرنے لگ جاتی ہے-

ناصرف یہ کہ فرضی ہیرو ازم کا رجحان ان لوگوں کے درمیان آج تک مقبول ہے جن کے نزدیک معاشرے میں قانون کی حیثیت کمزور ہے، بدعنوانی ہے یا عوام کی معاشرتی، سیاسی اور مذہبی جذبات کے مطابق نہیں ہے بلکہ اسکا تاثر سیاستدان بھی دیتے ہیں-

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں زیادہ تر معاشرے، خود کو عوامی اور مسیحائی خدائی فوجدار بنا کر پیش کرنے والے لیڈروں سے اکتا گۓ ہیں، وہیں بعض میڈیا ہاؤسز نے نمائشی خدائی فوجداری کا انداز اپنا رکھا ہے-

مثلاً، پاکستان اور ہندوستان میں، بڑھتی ہوئی اربنائزیشن سے مڈل کلاس ایکٹیویزم (فعالیت) میں اضافہ ہوا ہے، پرائیویٹ ٹی وی چینلز مڈل کلاس ہیروازم کا تصور پیش کرنے لگے جو اکثر و بیشتر اس طبقے کی مایوسی کی پیداوار ہوتا ہے کیونکہ یہ طبقہ سماجی اور معاشی اثر و رسوخ حاصل کرلینے کے باوجود اقتدار کے اونچے تخت تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا-

یہ ایسے محدود اشرافیہ ہیں جو اپنی رسائی کی راہ میں روڑے اٹکانے کا الزام ملک کے بدعنوان نظام کو ٹھہراتے ہیں، اور اپنی مایوسی سے مغلوب ہو کر یہ معاشرے کے بعض پہلوؤں کو غیر اخلاقی اور نظام کی زوال پذیری سے تعبیر کرتے ہیں-

پاکستان میں، زیادہ ریٹنگ کے لئے بیتاب، چند دوسرے درجے کے پرائیویٹ ٹی وی سٹیشنوں نے اسی رجحان پر کام کرتے ہوے ایسے جذباتی مرد اور اتنی ہی زیادہ جذباتی خواتین پر مبنی ٹی وی شوز تیار کیے جن میں یہ خدائی فوجدار ہاتھوں میں مائکرو فون اور کیمرے لئے خواجہ سراؤں، بد مست پولیس والوں اور ڈیٹنگ جوڑوں پر چڑھ دوڑتے اور بد اخلاقی پھیلانے پر انہیں لعنت ملامت کرتے-

اس پر مزید دلچسپ بات یہ کہ اخلاق کے یہ علم بردار کوئی ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھاۓ باریش مرد یا برقع پوش عورتیں نہیں ہوتیں بلکہ یہ 'نارمل' مڈل کلاس خواتین و حضرات ہیں، یا کم از کم دیکھنے میں تو ایسا ہی لگتا ہے-

لیکن عام خیال کے برعکس، اس فعل سے ایک حقیقت کو تقویت ضرور ملتی ہے کہ سنہ انیس سو اسی کے بعد سے پاکستان میں پھیلنے والی 'اسلامائزیشن' کی لہر کا ناخواندہ اور کم مراعات یافتہ طبقے سے بہت کم تعلق ہے-

اس عمل کا ہمیشہ سے اور ابھی تک بڑی حد تک تعلق ملک کی شہری مڈل کلاس اور تجارتی طبقے سے ہے-

سنہ انیس سو اسی میں، ضیاء الحق کے 'اسلامائزیش' کے عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ کئی مذہبی تنظیموں نے پاکستانی سیاست اور عمرانیات کے میدان میں اپنے قدم جماۓ-

حالانکہ ان میں سے زیادہ تر عسکریت پسند تھے اور انہوں نے بلآخر خود کو 'اسٹریٹجکلی' بنیاد پرست اداروں کے کچھ حصّوں سے منسلک کر بھی لیا، لیکن وہ تبلیغی تحریکیں تھیں جنہوں نے ملک کے سماجی اور ثقافتی ماحول کے اندر زیادہ کامیابی حاصل کی-

اور کب سے یہ نام نہاد 'تعلیم یافتہ' اور امیر شہری طبقے اخلاقی کروسیڈرز بن گئے؟

اس کا جواب شہری مڈل کلاس کے درمیان موجود وہ سامعین ہیں جو تبلیغی تنظیموں کو ملے-

لیکن خدائی فوجداری کی جو قسم آج ہمیں ان بدنام ٹی وی شوز میں دیکھنے کو ملتی ہے اس کا تعلق سنہ انیس سو اسی کی مذہبی جماعتوں کے یوتھ ونگ سے ہے جو میوزیکل کنسرٹس، نیو ایئر پارٹیوں اور سنیما گھروں پر حملے کیا کرتے تھے-

آج کے دور میں، یہ اخلاقی ہیرو ازم فقط ایک ٹیلی ویژن افیئر ہی نہیں، اس کو چلانے والے وہ مرد و خواتین ہیں جنہیں خواجہ سراؤں، ڈیٹنگ جوڑوں یا بدمست پولیس والوں سے گھن آتی تو ہوگی لیکن انکا فارغ وقت سنیما گھروں کے چکر لگاتے، شادیوں میں رقص کرتے اور جدید مالز میں شاپنگ کرتے گزرتا ہے-

سوال یہ ہے کہ، (ماڈرن خواتین پر مشتمل) یہ کردار جو ممکن ہے فوری طور پر ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہوں لیکن اصلیت میں، یہ ٹی وی کے لئے بناۓ گۓ نام نہاد ہیرو ازم کے پروگرام کس طرح سیالکوٹ کے اس جنونی ہجوم سے مختلف ہیں جنہوں نے دو سال پیشتر محض چوری کہ شبے پر دو نوعمر لڑکوں کو مار مار کر جان سے ہی مار ڈالا؟

انصاف اور اخلاق کے لئے معاشرے کی فرضی پیاس بجھانے کا دعویٰ کرنے کی بجاۓ یہ خدائی فوجداری پروگرامز اصل میں اس شہری مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ماحول کی طرف اشارہ ہیں جو خطرناک حد تک فاشسٹ رجحانات اور مایوسی، کینہ پروریت کی طرف بڑھ رہا ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 اپریل 2025
کارٹون : 4 اپریل 2025