• KHI: Maghrib 6:19pm Isha 7:37pm
  • LHR: Maghrib 5:40pm Isha 7:03pm
  • ISB: Maghrib 5:42pm Isha 7:07pm
  • KHI: Maghrib 6:19pm Isha 7:37pm
  • LHR: Maghrib 5:40pm Isha 7:03pm
  • ISB: Maghrib 5:42pm Isha 7:07pm

کراچی: فرقہ واریت کا گڑھ؟

شائع January 23, 2014

ایک ایسے شہر میں جو تشدد کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے؛ جہاں جرم، سیاست اور انتہاپسندی آپس میں جڑے ہوئے ہیں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے وسائل محدود ہیں اور مجرموں کو قانون کے دائرہ میں لانے کی رفتار کم ہے، جہاں مذہبی ادارے سیاسی ایجنڈہ رکھتے ہیں اور نفرت پھیلاتے ہیں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، فرقہ واریت کا واضح طور پر پتا چلانا مشکل ہے-

2007 سے پاکستان میں تشدد میں اضافہ جاری ہے --- تشدد پسند سیاسی رہنماؤں، فوج، پولیس، اماموں، قبائلی رہنماؤں، شیعوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا رہے ہیں --- کراچی ان کی کارروائیوں کا شہری مرکز بن گیا ہے- پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی تازہ ترین سیکیورٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2013 میں فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتوں میں 53 فی صد کا اضافہ ہوا ہے- ان میں سے 85 فی صد سے زیادہ حملے جن میں 68 فی صد افراد ہلاک ہوئے، کراچی، کوئٹہ، گلگت اور خرم ایجنسی میں کئے گئے-

گزشتہ سال، 132 فرقہ وارانہ حملوں میں 212 لوگ مارے گئے، جو زیادہ تر کراچی میں ہوئے- گو کہ، کراچی کی سڑکوں پر 2011 سے جو انتقامی فرقہ وارانہ ہلاکتوں کا سلسلہ چلا اس نے نسلی-سیاسی تشدد کو ہوا دی جس میں بہت سی ہلاکتوں میں فرقہ وارانہ تنظیموں کا حصہ بھی ہے-

ممنوعہ فرقہ وارانہ جماعت لشکر جھنگوی (ایل جے) جس کے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ عملی اور نظریاتی تعلقات ہیں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تشدد پسندی جو ملک کے مختلف حصوں میں جاری ہے کس طرح مہلک گٹھ جوڑ کے ذریعے اس شہر کو متاثر کر رہی ہے-

جہاں تک ایل جے - ٹی ٹی پی کے گٹھ جوڑ کا تعلق ہے، چوہدری اسلم خان نے جو سندھ پولیس سی آئی ڈی کی انتہا پسندی کی روک تھام کرنے والے سیل کے سربراہ تھے، اور جنہیں حال ہی میں ہلاک کر دیا گیا، اپنی ہلاکت سے چند دن قبل ہی ایک انٹرویو میں بتایا کہ دونوں تنظیمیں شہر میں مشترکہ طور پر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہیں- انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایل جے کی بلوچستان شاخ کے سربراہ، عثمان سیف اللہ کرد، کا تعلق بھی کراچی کے فرقہ واریت پسند دہشت گردوں سے ہے-

اسلم نے 7 جنوری کے انٹرویو میں بتایا تھا کہ؛ "کراچی اور پنجاب میں ایل جے کے خلاف کریک ڈاون کے بعد ان کے کارکنوں نے قبائلی علاقوں میں پناہ لے لی ہے-"

انہوں نے کہا کہ گزشتہ نومبر میں ایک کارروائی کے دوران پولیس نے کراچی ایل جے کے سربراہ گل حسن کو ہلاک کر دیا تھا، جو حیدری مسجد اور امام بارگاہ رضا پر خودکش حملہ (2004) میں ملوث تھا اور اسی نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس مقبول باقر پر اگست 2013 میں حملہ کیا تھا-

اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے درمیان نظریاتی اور اقتدار کی جنگ نے جو سنی دیوبندی اسکول اور بریلوی سنیوں کے درمیان جھگڑے کے بعد شروع ہوئی جس میں خاص طور پر سنی تحریک آگے آگے تھی، تشدد کی آگ کو اور بھی بھڑکایا- دہشت گردوں کے گروہوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے درمیان فرق کرنا نامناسب ہے کیونکہ ان دونوں کے ایجنڈے اور مذہبی نظریات ایک جیسے ہیں، سیاسی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں؛ "کوئی نہیں جانتا کہ فرقہ وارونہ تشدد کی اصل وجہ کیا ہے،آیا یہ قانون اور تعلیم کو اسلامی بنانے کی ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، متوازی لیگل اور جوڈیشیل سسٹم کا نتیجہ ہے،پولیس فورس میں سیاسی مداخلت کا نتیجہ ہے،ریاست اور فوج کی ناکامی ہے یا سیکیولر فورسز کا کمزور ہو جانا اس کی وجہ ہے"-

فرانسیسی ریسرچر مریم ابو زہاب سمجھتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعلقات اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے (سعودی عرب اور ایران کے درمیان بالواسطہ جنگ) لیکن وہ فرقہ وارانہ تشدد کو مقامی مظہر سمجھتی ہیں- آپس میں مضبوطی سے جڑے ہوئے گروہوں کو توڑنے کی بیدلی سے کی جانے والی انتظامی اور قانونی کوششوں کے نتیجے میں محوزہ ممنوعہ تنظیمیں مثلاً ایس ایس پی بلا خوف و خطر کارروائیاں کرتی ہیں، اپنے جنگجویانہ نظریات کو پھیلانے کے لیئے مختلف وسائل استعمال کرتی ہیں (سوشیل میڈیا) اور انتخابی سیاست میں حصہ لیتی ہیں جس کا تعلق قومی سطح کی سیاسی جماعتوں سے ہے-

کراچی کی اہل سنت والجماعت کے سربراہ، اورنگ زیب فاروقی، شیعوں کو 'کافر' قرار دیتے ہیں جو وسیع معنوں میں اسلامی دنیا میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ رجحان کی نشاندہی کرتا ہے- تشدد کی مذمت کرتے ہوئے، وہ ایل جے کے ساتھ تعلقات کی تردید کرتے ہیں، اور مخالف گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں- وہ پولیس کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں کہ وہ سنیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ انتقامی حملوں کا نشانہ بن گئے-

جہاں تک شیعہ سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کا تعلق ہے تو اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہلاک کرنے کی پر تشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہے- ہوسکتا ہے کہ انھوں نے کراچی اور دوسرے شہروں میں گزشتہ سال کوئٹہ میں ہونے والے بموں کے دھماکوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہوں لیکن پولیس کو شبہ ہے کہ بعض گروہوں نے انتقامی راہ اپنالی ہو، اور یہ کہ دیوبندی علماء پر حملوں میں کراچی کی شیعہ عسکری تنظیم ملوث ہے-

ایم ڈبلیو ایم کے ترجمان علی احمرنے ایل جے پر الزام لگایا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہے اور یہ دعویٰ کیا کہ 2013 میں 500 شیعہ افراد کو جن میں پروفیسرز، طلبا، وکلاء اور ڈاکٹر شامل تھے، ہلاک کردیا گیا جبکہ صرف چار یا پانچ مقدمات میں مجرموں کو گرفتار کیا گیا-

اگر نوجوان شیعہ ایم ڈبلیو ایم میں شامل ہورہے ہیں تو اعتدال پسند دیوبندی مذہبی رہنماؤں کے انٹرویوز سے اندازہ ہوتا ہے کہ طلباء اور اساتذہ کی ہلاکتوں کے نتیجے میں وہ لوگ جو فرقہ وارانہ تنظیموں سے تعلق نہیں رکھتے دیوبندیوں کی جماعت میں شامل ہورہے ہیں-

تشدد پسندی کی وجہ سے معیشت، قومی سلامتی، شہریوں کے حوصلوں اور سیاسی استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے- متبادل لبرل قوتوں کی جگہ جس طرح تنگ ہو رہی ہے اس سے یہ ظاہر ہے کہ مذہبی دائیں بازو کی سیاسی سرپرستی بے روک ٹوک جاری ہے، عوام میں ممنوعہ انتہا پسند تنظیموں اور مدرسوں کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے، بھرتیوں میں بے روک اضافہ جاری ہے نیز فرقہ واریت پر مبنی نصاب اور کتابوں کی وجہ سے عدم برداشت اور تعصب میں اضافہ ہورہا ہے-

چونکہ کراچی کے جنگجو اپنے اقتدار کی جگہ سے 'بزنس' کرتے ہیں جہاں ان کی سیاسی افادیت برقرار رہتی ہے، نتائج اگرچہ غیر یقینی ہوتے ہیں لیکن یقینی طور پر ہلاکت خیز ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے سرحدی علاقوں میں بعض طالبان گروہوں کی پرورش کرتے ہیں تاکہ 2014 کے بعد کی بالواسطہ جنگ لڑی جاسکے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

رزشتہ سیتھنی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 فروری 2025
کارٹون : 4 فروری 2025