• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

طالبان کو مذاکرات کا موقع دیا جائے۔ مذہبی رہنماؤں کا مطالبہ

شائع January 29, 2014
افغانستان میں امن کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں مقررین نے خبردار کیا کہ فاٹا میں فوجی آپریشن ملک کے لیے نقصاندہ ہوگا۔ —. فوٹو آن لائن
افغانستان میں امن کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں مقررین نے خبردار کیا کہ فاٹا میں فوجی آپریشن ملک کے لیے نقصاندہ ہوگا۔ —. فوٹو آن لائن

اسلام آباد: سیکیورٹی کے ماہرین اور سینیئر سیاستدانوں کے ساتھ ملک کی تین اہم مذہبی جماعتوں کے سربراہوں نے منگل کے روز خبردار کیا کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اس خطے میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہوجائے گی۔

”افغانستان میں امن و مصالحت“ کے عنوان کے تحت منعقدہ ایک کانفرنس کے تمام مقررین کے مابین اس حوالے سے ایک اتفاق رائے موجود تھا کہ دہشت گردی کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالنا چاہیٔے، نہ کہ طاقت کے استعمال کے ذریعے۔

اس کانفرنس کا اہتمام حال ہی میں تشکیل دیے جانے والے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ڈسکشن اینڈ سلوشن (سی ڈی ایس) نے کیا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اور اے این پی کے افراسیاب خان خٹک دو روزہ کانفرنس کے پہلے دن کے اہم مقررین تھے، جسے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم سے منسوب کیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی کے امیر منور حسن جنہوں نے پچھلے سال القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے کر ملک بھر میں ایک بحث چھیڑ دی تھی، انہوں نے ایک بار پھر اسامہ کی امریکا کے خلاف مزاحمت کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ”لوگ اسامہ کو پسند کرتے ہیں، جنہوں نے بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی، وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔“

جے یو آئی-ایس کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے فاٹا میں کسی بھی قسم کے فوجی آپریشن کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ”اگر آپریشن شروع کیا گیا تو پانچ لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے اور اس کے علاوہ طالبان بھی ان کے ساتھ منتقل ہوں گے، اور جنگ پورے ملک میں پھیل جائے گی۔“

جے یو آئی-ایس کے سربراہ جنہوں نے طالبان کے ساتھ امن عمل سے خود کو علیحدہ کرلیا تھا، انہوں نے وزیراعظم نواز شریف پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ امریکی دباؤ کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔

ان کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے بھی مسلم لیگ نون کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی کررہی ہے، اس کو قوم کی جانب سے گزشتہ انتخابات میں دیے گئے مینڈٹ دیا گیا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کےساتھ مذا کرات کرے گی، وہ اس مینڈیٹ کی خلاف ورزی کررہی ہے۔

جے یو آئی-ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جو مسلم لیگ نون کی حکومت میں ایک شراکت دار ہیں، انہوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو مقامی قبائل کے لوگوں پر مشتمل ایک جرگے کے ذریعے ہونا چاہیٔے۔

اس کانفرنس کے منتظمین شاید جان بوجھ کر مولانا فضل الرحمان اور ان کے حریف کو آپس میں بات چیت کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتے تھے، اور اسی لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو صبح کے سیشن میں کانفرنس کا افتتاح کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمان نے نیٹو (معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم) کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ”سوویت یونین کے انہدام کے بعد اب نیٹو کو جاری رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، جسے اب افغانستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔“

انہوں نے طالبان، افغان صدر حامد کرزئی اور تمام دیگر گروپس کے درمیان مصالحت کی ضروت پر زور دیا۔

اے این پی کے سینیٹر افرسیاب خٹک نے طالبان کے کردار کے بارے میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لانے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا ”اب طالبان اس ملک پر دوبارہ حکمرانی نہیں کرسکتے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ عناصر اب بھی ستر اور اسّی کی دہائی کے نظریات کو لاگو کررہے ہیں۔ ان عناصر کو سمجھنا چاہیٔے کہ اب بہت سی چیزیں تبدیل ہوچکی ہیں اور یہاں تک کہ چین اور روس بھی افغانستان کے اندر امن چاہتے ہیں۔“

افراسیاب خٹک، جن کی پارٹی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتی ہے، نے کہا کہ افغانستان میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ ”افغانستان میں سول سوسائٹی بہت زیادہ مضبوط ہے، ستاون ٹیلی ویژن چینلز کام کررہے ہیں، اور لاکھوں بچے اسکول جارہے ہیں۔“

ملک کی اہم ترین انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درّانی نے کہا کہ افغانستان میں مختلف اسٹیک ہولڈرز آپس میں مذاکرات نہیں کرسکتے، انہیں کچھ بیرونی قوت درکار ہے، جو ان تمام گروپس کو مذاکرات کی میز پر اکھٹا کرسکے۔“

اسد درّانی نے دعویٰ کیا کہ افغانستان میں موجود مختلف گروپس کے ساتھ پاکستان رابطے میں تھا، اور اس ملک میں امن کو یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد کو اپنا کردار ادا کرنا مشکل نہیں ہوگا۔

اس سے پہلے اپنی افتتاحی تقریر میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ”افغان میں پروان چڑھنے والا، افغان کا اپنا اور افغان قیادت کا پیش کردہ حل ہی افغانستان میں امن لا سکتا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ”تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی بیرونی قوت طویل عرصے تک اس خطے میں قیام نہیں کرسکی۔ تاہم بڑے پیمانے پر دنیا میں اس بنیادی اصول کو سمجھنے سے انکار کیا گیا ہے۔“

جماعت اسلامی افغانستان کے ایک نمائندے نے بھی یہ خواہش ظاہر کی کہ افغانستا میں امن کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کو ایک کردار ادا کرنا چاہیٔے۔

سابق سفیر ایاز وزیر کے نکتہ نظر کے مطابق قبائلی علاقوں میں 2003ء تک امن قائم تھا، لیکن جب پاکستان نے اپنی فوج وزیرستان میں بھیجی تو مزاحمت شروع ہوگئی۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے بیٹے عبداللہ گل نےتجویز دی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو مؤخر کردینا چاہیٔے اس لیے کہ جب تک امریکا افغانستان میں موجود رہے گا، مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے۔

تبصرے (1) بند ہیں

rabnawaz Jan 29, 2014 01:16pm
ارشاد نبوی صلی اللہ علہ وسلم ،،، میری امت پر ایک وقت آۓ گا۔ اس وقت کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ھو گی ۔ فتنے انھیں سے نکلیں گے ۔اور انھیں واپس آ کر ختم ھوں گے ۔ آپ کی پیشین گوي کس شان سے پوری ھو رھی ھے ۔۔،،،سبحان اللہ،،،،

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024