رونمائی میں رکاوٹ
کتابوں پر پابندی لگانے کی خاطر حکومتوں کو کبھی مشورہ نہیں دینا چاہیے، یہ ان کا کام نہیں ہے۔
اور جس مواد پر سوال اٹھیں، وہ عسکریت پسندی کے خلاف جدوجہد کی داستان ہو، جیسا کہ ملالہ یوسف زئی کی 'آئی ایم ملالہ' تو پھر یہ غالب آنے کی ابتدا ہے، اس کے بعد، مذکورہ کتاب کی رونمائی روکنے کی کوشش کو یکسر انتہائی خراب صورتِ حال قرار دے سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، خیبر پختون خواہ کی انتظامیہ نے گذشتہ روز پشاور یونیورسٹی میں ملالہ کی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
پی ٹی آئی کے تحت قائم صوبائی حکومت کا رویہ سرد مہری پر مبنی رہا، جیسا کہ صوبائی وزرا اور یونیورسٹی انتظامیہ نے تقریب کے متظمین پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اسے منسوخ کردیں۔ خود پولیس نے بھی تقریب کے لیے حفاظتی انتظامات کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
یہ پریشان کُن نظیریں ہیں، خاص طور پر ایسے میں کہ جب خود ایک اعلیٰ تعلیمی درس گاہ اس معاملے میں ملوث ہو۔
جیسا کہ تقریب کا اہتمام کرنے والے ایک منتظم کا کہنا تھا کہ 'یہ رویہ اظہارِ رائے کی آزادی اور فروغِ تعلیم کے خلاف ہے' لیکن یہاں ایک اور بھی سنگین مسئلہ موجود ہے۔
خیبر پختون خواہ کی حکومت خود اس خوف کے دباؤ میں نظر آتی ہے جس نے پورے ملک کو اپنی زد میں لے رکھا ہے یعنی عسکریت پسندوں کے 'حملے' کا خطرہ۔
ریاست انہیں گنجائش پہ گنجائش دے کر اجازت دیے جارہی ہے کہ عسکریت پسند خود یہ فیصلہ کرلیں کہ عوام کے لیے کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں۔ ریاست کی طرف سے اس طرح کے اقدامات اور رویے، ہر لحاظ سے ناقابلِ قبول ہیں۔
عسکریت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے سرگرم کردار کے باعث، دنیا بھر نے ملالہ کے عزم و ہمت اور حوصلے کو سراہا ہے۔ انہیں دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں خوش آمدید کہا گیا اور اہم ترین عالمی فورم پر مدعو کیا گیا۔
کیا ہمارے سر اس بات پر شرم سے نہیں جھک جانے چاہئیں کہ دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کرنے والی ملالہ کو خود اس کے اپنے مُلک اور صوبے میں نہیں سراہا جارہا؟
آئیں، ہم واضح کرتے ہیں: ملالہ وہ ہے جو خیبر پختون خواہ کے شورش زدہ صوبے کا فخر اور یہاں کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کی علامت ہوسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے تقریب کی منسوخی پر اپنے افسوس کا اظہار کیا ہے تاہم اس سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنی حکومت کو قائل کریں اور سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ بنا کسی رکاوٹ کے، تقریب کا دوبارہ انعقاد کرائیں۔