• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm

نوشتہ دیوار

شائع February 6, 2014
سندھ میں وال چاکنگ پر سزا کا قانون منظور، سیاسی جماعتیں اپنے عمل سے مثال قائم کریں۔ فائل فوٹو۔۔۔
سندھ میں وال چاکنگ پر سزا کا قانون منظور، سیاسی جماعتیں اپنے عمل سے مثال قائم کریں۔ فائل فوٹو۔۔۔

دیواروں پر بے ڈھنگی تحریریں، دنیا بھر کے شہروں کا ایک بڑا مسئلہ ہیں، جس سے کراچی کو بھی رعایت حاصل نہیں۔ صرف کراچی ہی نہیں، وال چاکنگ نے سندھ کے دیگر شہروں کی نجی و سرکاری املاک کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

اگرچہ ایسی نقش و نگاری دنیا کے بعض حصوں میں زمانہ قدیم سے ہی چلی آرہی ہے جبکہ بعض شہروں میں تو نقش و نگار بنانے کے شوقینوں کے واسطے مقامات بھی مخصوص کیے جاچکے تاہم کراچی کی دیواروں پر بھانت بھانت کی تحریروں کے جو نقوش کندہ ہیں، وہ بہر طور نگاہوں پر ستم سے کم نہیں۔

مثال کے طور پر لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے جلوس، رہنماؤں کو خراجِ تحسین یا مخالف پر الزام تراشی کی تشہیر کے واسطے شہر بھر کی نجی و عوامی املاک کا بھرپور استعمال کیا ہے۔

بات یہیں تک محدود نہیں، وزن کم کرنے سے لے کر کالے جادو کے توڑ اور ہر مسئلے کا حل پیش کرنے والے نجومی اور عامل باباؤں تک، کراچی بھر کی دیواریں تمام اقسام کی خدمات فراہم کرنے والوں کے اشتہارات سے بھری پڑی ہیں۔

معاشرے میں نفرت کا زہر پھیلانے کی خاطر، فرقہ وارانہ اور عسکریت پسند گروپوں نے بھی شرانگیز پیغامات کی تشہیر کے واسطے شہر کی انہی دیواروں کا انتخاب کیا ہے۔

اس حوالے سے، سندھ اسمبلی نے پیر کو ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت چاکنگ کے ذریعے کسی نجی یا سرکاری املاک کا چہرہ بگاڑنے والے ذمہ داروں کو جرمانے اور قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امید کرتے ہیں کہ یہ قانون اس مسئلے سے موثر طور پر نمٹ سکے۔

عارضی طور پر ہی سہی لیکن ماضی میں بھی سندھ انتظامیہ، کریمنل پِینل کوڈ کی دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت شہر بھر میں وال چاکنگ پر پابندی لگاچکی ہے لیکن سندھ کی دیواریں ثبوت ہیں کہ یہ پابندی بھی بدنما چاکنگ، پوسٹر اور نوٹس وغیرہ چسپاں کرنے کے سلسلے کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو کہ چاکنگ اور پوسٹرز سے دیواروں کو بدنما بنا کر، قانون کی خلاف ورزی کے بڑے ذمہ داروں میں خود سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اس بات کی نشان دہی پیر کو ایوان میں بھی کی گئی تھی۔

اس قانون کی حمایت میں پی پی پی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں نے بھی ووٹ دیے، اب انہیں اپنے حمایتیوں کو وال چاکنگ سے روک کر مثال قائم کرنی چاہیے۔

بنیادی طور پر تو یہ شہری انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اس قانون کا نفاذ عمل میں لائے اور پہلے سے کی گئی چاکنگ صاف کرے لیکن شہریوں کو بھی اپنے علاقوں میں چاکنگ مٹانے اور چسپاں پوسٹرز صاف کرنے کے واسطے پہل کرنی چاہیے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 8 نومبر 2024
کارٹون : 7 نومبر 2024