مشرف کے بجائے مجھے سزا دی جائے: وکیل
اسلام آباد: بدھ بارہ فروری کو غداری کے مقدمے کی کارروائی کے دوران ایک ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ایک وکیل نے سابق صدر کی جگہ خود کو سزا کے لیے پیش کردیا، حالانکہ خصوصی عدالت نے اب تک سابق صدر پر باقاعدہ طور سے غداری کا الزام عائد نہیں کیا ہے۔
ایڈوکیٹ رانا اعجاز احمد جو پرویز مشرف کے دور میں پنجاب کے وزیرِ قانون تھے، انہوں نے عدالت سے کہا کہ انہیں آئین کو معطل کرنے پر 1973ء کے غداری کی سزا کے ایکٹ کے تحت انہیں پھانسی یا عمر قید کی سزا دی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ ”سابق صدر اس وقت ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ بطور صوبائی وزیرقانون کے کام کیا ہے اور اگر عدالت مجھے جنرل مشرف کی جگہ مجھے کوئی سی بھی سزا سناتی ہے تو یہ میرے لیے اعزاز ہوگا۔ میں جنرل مشرف کا حقیقی دوست ہوں، اور میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ضرورت پڑنے پر ایک دوست ہی اپنے دوست کے کام آتا ہے۔“
رانا اعجاز احمد نے جذباتی لہجے میں کہا کہ عدالت نے ان کے عدالت کے اندر سونے اور خراٹے لینے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جس کے لیے وہ معزز ججوں کے شکر گزار ہیں۔ ”آج میں فریش موڈ میں ہوں اور جیل کے لاک کا تجربہ کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔“
لیکن تین ججز پر مشتمل خصوصی عدالت کے سربراہ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب نے انہیں یاد دلایا کہ جنرل مشرف نے اب تک کسی بھی قسم کا اعترافی بیان نہیں دیا تھا، یہاں تک کہ دفاع کے وکیل نے تو عدالت کے دائرہ اختیار کو ہی چیلنچ کردیا تھا۔ؕ
بعد میں عدالت نے ڈاکٹر خالد رانجھا کی دائر کردہ درخواست کو بحث کے لیے اُٹھایا، جس میں غداری کے مقدمے کو فوجی عدالت میں منتقل کرنے کے لیے استدعا کی گئی تھی۔
استغاثہ کی ٹیم کے سربراہ ایڈوکیٹ اکرم شیخ نے دلیل دی کہ جنرل مشرف کے معاملے میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے سیکشن سات کی شرائط کے تحت نہ تو ان کے کورٹ مارشل کے لیے ان کے رینک کو بحال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت عملی طور پر ایک فوجی سربراہ کے کورٹ مارشل کی اجازت ہےؕ۔