• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

افواہ بازی کا ہتھکنڈا

شائع February 14, 2014

ہندوستان میں افواہ یا خبر پر یقین کرنا تقریباً ناممکن ہو کر رہ گیا ہے اور اس میں رہی سہی مشکل میں کمی کو پورا کر دیا ہے- اب یہ ایک گوئیبل افواہ ہی تو ہے کہ تاج محل مرمت کیا گیا شیو مندر ہے، لیکن یہ دعویٰ بہت سے ایسے لوگوں کے لئے ایمان کا درجہ رکھتا ہے جن کے ذہن ہندوتوا تاریخ اور کہانیوں سے برین واش کیے جا چکے ہیں-

آپ کو شاید یاد ہو کہ چند سال پہلے جمنا کے اس پار، دہلی کے ایک گنجان آباد ضلعے میں بندر جیسا دکھنے والا ایک بھوت لوگوں کے چہروں کو نوچ کھسوٹ لیتا ہے- آج بھی بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ یہ واقعہ ہوا تھا حالانکہ نہ تو لوگ اور نہ ہی وہ ٹی وی چینل جنہوں نے اس کہانی پر پروموٹ کیا، کبھی بھی اس حوالے سے کوئی چھوٹا سا بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکے، حملے میں نوچے جانے کی وجہ پڑنے والے نشانات والا چہرہ دکھانا تو دور کی بات ہے-

جس غیر محفوظ معاشرے کے طور پر ہندوستان کو ڈھالا جا رہا ہے، افواہوں کی سیاسی افادیت ہے اور حاصل بھی کی جا رہی ہے- ایودھیا میں 1992 میں بابری مسجد کے توڑے جانے سے تقریباً ایک سال پہلے ہندوستان کے کئی شہروں میں یہ افواہ پھیلا دی گئی تھی کہ ہندوتا ہجوم نے سولہویں صدی کی مسجد کو برباد کر دیا ہے-

یہ اصل واقعات سے پہلے حالات کو جانچنے کا ایک طریقہ تھا تا کہ جب واقعہ ہو تو اسے فوری طور پر قبولیت مل جائے، افواہ سازوں اور اسے پھیلانے والے اس "خبر" کی سورس کے طور بی بی سی کا نام لیتے تھے (چاہے جھوٹا ہی سہی)- افواہیں فرقہ ورانہ فسادات شروع کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں مزید بھڑکانے کا کام بھی کرتی ہیں اور ان کے ذریعے سیاسی مخالفین کو بھی تباہ کیا جا سکتا ہے-

گجرات میں 2002 میں مسلم مخالف جذبات اور پروگراموں کے بڑھاوے میں افواہوں کا ہی کردار تھا حالانکہ اس قتل عام کی سنگینی کو مرکزی دھارے کے میڈیا نے "گودھرہ فسادات" یا "پوسٹ گودھرہ تشدد" کا نام دے کر کم کرنے کی کوشش کی، جس سے اس پورے واقعے کا عمل اور رد عمل کے نام پر جواز مہیا ہو سکے-

مبینہ طور پر ایک مسلم ہجوم نے ٹرین کی ایک بوگی کو آگ لگا کر پینسٹھ ہندوتوا کارکنوں کو ہلاک کر کے اس عذاب کو دعوت دی تھی- میں سوچتا ہوں کہ کیا ہندوستان کے اینکرز اسی طرح یہودیوں کے ہولوکاسٹ کو پوسٹ رائخ اسٹاگ تشدد کی آگ کا بھی اسی طرح جواز مانیں گے؟ میں نہیں سمجھتا وہ ایسی جرات کریں گے-

ہندوستان میں ٹی وی چینلز بہت بڑی تعداد میں وجود میں آئے ہیں جن سے مذہبی عقائد، سیاسی افواہیں، بالی ووڈ کی چٹپٹی خبریں اور وہ اسٹاک ایکسچینج کا وہ رئیل ٹائم ڈیٹا بھی دکھایا جا رہا ہے جو ملک کی جواری معیشت لئے ایندھن کا کام کر رہا ہے-

ایک حیرت انگیز تبدیلی یہ آئی ہے کہ سنجیدہ ناظرین ریاست کی جانب سے چلنے والے چینلز کا رخ کر رہے ہیں، وہی جنہیں ایک موقع پر انہوں نے بھلا ہی دیا تھا- اب ستم ظریفی تو دیکھیں کہ ان میں سے دو چینلز کو پارلیمنٹ کے دو ایوانوں کی طرف سپانسر کیا جاتا ہے جن پر نسبتاً بامعنی اور غیر جانبدارانہ مستند خبریں پیش کی جاتیں ہیں-

ٹیلی ویژن پر ایک افواہ کیسے تیار کی جاتی ہے اس کی تازہ مثال ہی کو لے لیجئے- چند روز قبل، ایک اینکر نے، جو اپنے دائیں بازو کی جانب جھکاؤ اور فاکس نیوز والوں کی طرح چیخ چیخ کر بولنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، کس طرح کانگریس کی تازہ کونپل، راہول گاندھی کو پھنسا کا رکھ دیا تھا- انہوں نے سیاست کے نووارد سے، جو ناتجربہ کار اور نروس بھی تھا، خاصی بدتمیزی اور غیر مناسب انداز میں 1984 میں سکھ مخالف قتل عام میں ان کی پارٹی کے کردار کے حوالے سے بہت چبھتے ہوئے سوالات کئے-

اگر انفرادی الزام کے طور پر دیکھا جائے تو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد، دہلی میں معصوم سکھوں کے قتل عام میں کانگریس کے واضح خفیہ کردار کے حوالے سے شبہے کی کوئی گنجائش نہیں- لیکن انٹرویو لینے والے صاحب مسلسل اس بات کو رد کر رہے تھے کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں نریندرہ مودی کا کوئی بھی کردار تھا- اپنے دیکھنے والوں کو یہ یاد دلا رہے تھے کہ مودی کو ایس آئی ٹی کی ٹیم نے کلین چٹ دے دی تھی- ایس آئی ٹی، یعنی وہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم، جسے 2002 کے قتل عام کی تحقیقات کے لئے ہندوستانی سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کیا گیا تھا-

حقیقت یہ ہے ایس آئی ٹی نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا- اس کی 2010 کی رپورٹ میں صاف لکھا ہے "اس حقیقت کے باوجود کہ گلبرگ سوسائٹی اور دوسری جگہوں پر مسلمانوں کے خلاف خوفناک اور پرتشدد حملے ہو رہے تھے، حکومت کا ردعمل ہرگز وہ نہیں تھا جو ان حالات کوئی اس سے توقع کرتا ہے- وزیراعلیٰ نے گلبرگ سوسائٹی، نرودا پتیا اور دوسرے مقامات پر حالات کی سنگینی کو یہ که کرکم یا ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی کہ ہر عمل کا اتنا ہی مخالف اور طاقتور ردعمل ہوتا ہے"-

حقیقت تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے بہت سے حامی جن میں ایک خاتون وزیر بھی ہیں، نرودا پتیا، جو کہ ان خاتون کا حلقہ انتخاب بھی تھا، میں ہوئے 95 قتل کی سزا میں جیل میں قید ہیں- مایا کوندانی اس وقت محض ریاستی اسسمبلی کی ممبر یعنی ایم ایل تھیں، جب ان پر مسلمانوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا گیا تھا- اس بات کو علم ہونے کے باوجود، انہیں وزیر بنا دیا تھا-

جھوٹ مسلسل اس وقت تک بولتے رہو کہ وہ ایک کامیاب افواہ بن جائے- ایک اور جھوٹ تھا جو انٹرویو لینے والے نے غیر محسوس انداز میں بولا لیکن راہول گاندھی اپنی حماقت کی وجہ سے اسے پکڑ نہ سکے- حقیقت یہ ہے کہ فوج کی جانب سے گولڈن ٹیمپل پر قبضے میں ہی نہیں، بلکہ گاندھی کے قتل کے بعد ہوئے سکھوں کے قتل عام میں کانگریس کا نہ صرف ہاتھ تھا بلکہ اس کا گٹھ جوڑ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ بھی تھا (اور وہ بھی صرف برطانیہ کی حد تک نہیں)

آر ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر، ناناجی دیشمکھ نے اس دور میں ہوئے قتل عام اور فوج کی گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کے بارے میں لکھا ہے- جارج فرنانڈس کی طرف سے شائع جیسے یہ کسی ایسے کانگریسی لیڈر کا ردعمل ہو جسے ایک ہجوم کی رہنمائی کرنا پڑ گئی ہو-

ملک بھر میں اچانک آگ لگانے اور تشدد بھڑک اٹھنے کے واقعات سے ان کے پیروکاروں کی جانب سے بے سمت غصے، نقصان اور چوٹ، کا نا مناسب اظہار ہوتا ہے- ان کے پیروکاروں اور چاہنے والے انہیں متحدہ ہندوستان کی علامت اور ان کی واحد محافظ کے طور پر دیکھتے تھے- چند اک دکا موقعوں کے علاوہ، سکھ کمیونٹی نے ایک لمبے عرصے تک معصوم لوگوں کے بربریت سے بھرپور قتل عام پر خاموشی قائم رکھی لیکن بہت عرصے سے زیر التواء آرمی ایکشن کی مذمت خطرناک پھٹ پڑنے والے انداز میں غصے کا اظہار کیا- ملک ان کے رویئے سے سکتے میں آ گیا تھا"-

تین فروری، 2002 کو ہندوستان ٹائمز میں شایع ہونے والی رپورٹ سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ سکھ مخالف تشدد میں انتہا پسند فاشسٹ آر ایس ایس کے کارکنوں کا کردار تھا- اس اس دعوے کے لئے کچھ مشتبہ افراد کے خلاف درج ایف آئی آرز کا حوالہ بھی دیا گیا ہے-

تاہم ہندوستان میں افواہ سازی کی فیکٹری میں کام جاری رہے گا، جب تک گیوبل اسٹائل والے ان اینکرز کی مقبولیت بڑھتی رہے گی-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 9 اپریل 2025
کارٹون : 8 اپریل 2025