• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

!کہاں ہیں 'غیرت' والے

شائع February 28, 2014 اپ ڈیٹ March 1, 2014
یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات ایک مومن سے زیادہ مذہب کی توہین اور کوئی نہیں کرتا، لیکن اس مخصوص کیس میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ ہم نے جو یہ ' غیرت مند قوم ' کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے وہ ایسے موقعوں پر کہاں مر جاتی ہے-
یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات ایک مومن سے زیادہ مذہب کی توہین اور کوئی نہیں کرتا، لیکن اس مخصوص کیس میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ ہم نے جو یہ ' غیرت مند قوم ' کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے وہ ایسے موقعوں پر کہاں مر جاتی ہے-
بھری پبلک اور میڈیا کے سامنے اپنی بیوی کو جانوروں کی طرح پیٹنے سے کوئی اسے روک کیوں نہیں رہا تھا؟؟؟
بھری پبلک اور میڈیا کے سامنے اپنی بیوی کو جانوروں کی طرح پیٹنے سے کوئی اسے روک کیوں نہیں رہا تھا؟؟؟

یکم فروری کو چند ٹی وی چینلز پر سکھر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی افسوسناک ویڈیو دکھائی گئی جس میں وہ ایک عورت کو تھپڑ اور لاتیں مارتے ہوۓ ایک وین سے گھسیٹ کر اتار رہا تھا- رپورٹس کے مطابق وہ وحشی اس عورت کا خاوند تھا-

ویڈیو شروع ہونے کے دو تین منٹ بعد مجھے ایک چونکا دینے والا خیال آیا، آخر کوئی اس شخص کو بھری پبلک اور میڈیا کے سامنے اپنی بیوی کو زدوکوب کرنے سے روک کیوں نہیں رہا؟

آج سے کوئی پچیس سال پہلے، میری عمر کوئی بیس سے اوپر ہوگی، جب میں نے کراچی کے علاقہ پی ای سی ایس ایچ کی سڑک پر ہجوم جمع دیکھا، قریب جانے پر پتا چلا کہ وہاں ایک شخص ایک چھوٹے سے بچے کو بری طرح پیٹ رہا تھا-

قدرتی سی بات ہے میں اس تماشے کے بیچ میں کود پڑا اور بچے کو اس شخص کے ہاتھوں سے کھینچ لیا، وہ شخص یہ کہتا ہوا مجھ پر پل پڑا کہ وہ اس بچے کا باپ ہے اور مجھے بیچ میں پڑنے کا کوئی حق نہیں-

اس کھینچا تانی کے دوران میں اس شخص کو یہ سمجھاتا رہا کہ بچے معصوم اور کمزور ہوتے ہیں-

جلد ہی اور لوگوں نے بھی مداخلت کی اور بلآخر ہم نے اس شخص کو پولیس کے حوالے کردیا- پھر سوجی ہوئی آنکھ اور دو عدد شریف آدمیوں کے ہمراہ میں اس زخمی اور دہشت زدہ بچے کو اسکی ماں اور دادا دادی کے پاس چھوڑ آیا جو قریب ہی رہتے تھے-

ماں کے مطابق بچہ مدرسہ جانے کی بجاۓ پارک کھیلنے چلا گیا تھا، وہاں اس کے باپ نے اسے دوسرے بچوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتے دیکھ لیا اور اسی وجہ سے اسے سرعام پیٹا گیا-

یکم فروری، سنہ دو ہزار چودہ کو جب میں ٹی وی پر اس عورت کو سرعام اپنے شوہر کے ہاتھوں پٹتے ہوے دیکھ رہا تھا اور غصّے سے یہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ کیمرہ مین جو اس پورے واقعہ کو فلما رہا ہے، اس شخص کو روکنے کے لئے مداخلت کیوں نہیں کرتا-

اس سوال کا منطقی جواب تو یہی ہو سکتا ہے کہ وہ تو پہلے ہی اس پورے واقعہ کو فلمانے میں مصروف ہے، اور مزید یہ کہ وہ لاکھوں ٹی وی ناظرین کے سامنے اس شخص کا گھناؤنا چہرہ اور بد فعل بے نقاب کر رہا ہے-

کیونکہ یہی فوٹیج تو مختلف ٹی وی چینلز پر چلائی گئی تھی اور یہی سندھ گورنمنٹ کی طرف سے تفتیش کا محرک بنی-

لیکن ان باقی درجن بھر افراد نے کیا کیا، سواۓ تماشائی بننے کے؟

کسی ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس حیوان کو روکنے کی کوشش نہیں کی- جیساکہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ وہاں موجود تمام حضرات وہ شرمناک کارروائی محض دیکھتے رہے-

میں نے سوچا کتنا تضاد ہے یہاں، ایسے حضرات کے مقابلے میں جو ذرا سی ہمت افزائی پر ان لوگوں کو مارنے کاٹنے کو دوڑ پڑتے ہیں جن پر 'توہین رسالت ' یا 'کفر' کا الزام لگا دیا جاۓ، یا ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو آگ لگا دیتے ہیں جن پر ذرا سا بھی شبہ ہو کہ ان کے مذہب کی توہین کر رہے ہیں-

یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات ایک مومن سے زیادہ مذہب کی توہین اور کوئی نہیں کرتا، لیکن اس مخصوص کیس میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ ہم نے جو یہ ' غیرت مند قوم ' کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے وہ ایسے موقعوں پر کہاں مر جاتی ہے-

اسی شام میں نے ٹویٹر پر 'لبرل فاشسٹ ' اور 'اعتدال پسندوں' کو اس عورت پر تشدد کی مذمت کرتے دیکھا- لیکن میں ان تین خواتین کی ٹویٹس کا خاص طور سے منتظر تھا جو میری ہر اس ٹویٹ پر لعنت ملامت کرنے پنہنچ جاتیں جو میں حجاب، نقاب یا با حیا خواتین کی علامتوں کے بارے میں کرتا-

میں نے اس مخصوص واقعہ کے بارے میں کوئی تین بار ٹویٹ کیا اس امید پر کہ یہ خواتین میری ٹویٹس پر کوئی ردعمل ظاہر کریں گی آخر کو ایک بے بس مسلمان عورت پر ظلم ہوا تھا-

وہ تینوں ٹویٹر پر مجھے فولو کرتی ہیں چناچہ میری ٹویٹس انکی ٹائم لائن پر ضرور آتی ہونگی- میں نے ان کا اکاؤنٹ چیک کیا یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا اس مار پیٹ کے بارے میں میری ٹویٹ کے وقت یہ خواتین ٹویٹرپر ایکٹو تھیں بھی یا نہیں-

ان میں سے دو ایکٹو تھیں- لیکن ان میں سے ایک تو عامر لیاقت کے کپڑوں پر ایک اور خاتون کے ساتھ تبادلہ خیال میں مصروف تھیں جبکہ دوسری بڑی چاہ کے ساتھ 'حلال پرفیوم ' کے بارے میں ٹویٹنگ فرما رہی تھیں-

یہ تو ممکن نہ تھا کہ اس عورت کے ساتھ ہونے والے واقعہ انکی نظر سے نہ گزرا ہو کیونکہ یہ فوٹیج بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر شیر کی جا رہی تھی، اور نا ہی میری تینوں ٹویٹس انہوں نے مس کی ہونگی-

انکی ٹائم لائن عموماً ایسی تصاویر سے بھری ہوتی جس میں بے پردہ عورتوں کو مکھیوں سے بھری لالی پاپ سے تشبیہ دی جاتی ہے، یا مغربی منافقت اور مناسب لباس میں ملبوس مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک پر افسوس سے- لیکن جب ان کے اپنے ملک میں انکی مسلمان بہن کو سرعام ایک شخص نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تو ان کے منہ سے ایک چیخ بھی نہ نکلی-

اس بات پر مجھے سنہ انیس سو بانوے میں، 'عورت اور اسلام' پر ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کا واقعہ یاد آگیا- سیمینار میں چند دانشوروں کے علاوہ ایک نام نہاد اسلامی عالم بھی موجود تھے (ایک مذہبی پارٹی کے سابقہ ممبر)

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ عالم صاحب نے یہ اعلان فرمایا کہ 'ترغیب دہ لباس پہننے والی عورت، مردوں کو اپنی عزت پامال کرنے کی دعوت دیتی ہے'-

سامعین میں موجود کچھ خواتین یہ سن کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوۓ آڈیٹوریم سے باہر چلی گئیں- لیکن ان میں سے دو عورتوں نے آرگنائزر کے ہاتھ سے مائکروفون لے کر باہر چلی جانے والی عورتوں کو لعنت ملامت کرنا شروع کردیا-

'ان میں سچ سننے کی ہمت نہیں ہے'، ایک عورت چلائی- میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا- کیا ایک عورت، دوسری عورت پر ہونے والی زیادتی (مرد کے ہاتھوں) کی حمایت کر رہی ہے؟

بہرحال، اس واقعہ خیز سیمینار کا حیرت انگیز لمحہ تب آیا جب، عالم صاحب کی تقریر ختم ہونے کے بعد سامعین سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں کوئی سوال کرنا ہے، اس پرایک اردو ہفتہ وار سے وابستہ خاتون صحافی نے مائکروفون مانگا-

خاتون نے اپنا گلہ صاف کیا، اور سلام کے بعد عالم صاحب سے ایک سوال کیا، وہ سوال اتنا عام سا تھا کہ میں بالکل بھول چکا ہوں کہ انہوں نے کیا پوچھا تھا- لیکن اس کے بعد کیا ہوا وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا-

جیسے ہی اس عالم نے خاتون کے سوال کا جواب دینا شروع کیا، وہ خاتون زوردار آواز میں دہاڑی ،"خبردار ! اپنے نظریں نیچی کر کے مجھے جواب دو-"

اس بار باہر جانے کی باری عالم صاحب کی تھی- انہیں اپنی 'بے عزتی' محسوس ہوئی تھی-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

sagar Feb 28, 2014 08:28pm
aala hamesh ke tarh

کارٹون

کارٹون : 5 اپریل 2025
کارٹون : 4 اپریل 2025