سپریم کورٹ: ایم آئی افسر کے آرمی ٹرائل کی درخواست مسترد
اسلام آباد: بدھ چھبیس فروری کو سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع کی اس درخواست کو مسترد کردیا، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ایک حاضر سروس فوجی افسر پر پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت مقدمہ چلایا جائے، جن پر تاصیف علی کی جبری گمشدگی میں ملؤث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں دو رکنی عدالتی بینچ نے اس کے بجائے پنجاب پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملزم میجر محمد علی احسن کے خلاف اپنی تحقیقات جاری رکھے۔
اس بینچ نے تاصیف علی عرف دانش کی اہلیہ عابدہ ملک کی درخواست پر یہ مقدمہ قائم کیا تھا۔
انہوں نے ملٹری انٹیلی جنس کے آفیسر علی احسن،جنہیں عام طور پر میجر حیدر کے نام سے جانا جاتا ہے، پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کے شوہر کی جبری گمشدگی میں ان کا ہاتھ تھا اور انہوں نے استدعا کی تھی کہ ان کے شوہر کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے۔
تاصیف علی جو 23 نومبر 2012ء سے لاپتہ تھے، ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حزب المجاہدین کے سرگرم رکن تھے، اور انہیں مبینہ طور پر میجر احسن نے اُٹھایا تھا۔ ان کی ٹیلی فون پر آخری بات چیت میجر احسن کے ساتھ اس وقت ہوئی تھی، جب وہ بطور کیپٹن ایم آئی-918، منگلا کنٹونمنٹ میں تعینات تھے۔
اس معاملے کی رپورٹ پانچ دسمبر 2012ء کو صادق آباد پولیس اسٹیشن پر درج کرائی گئی تھی، اور لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 19 مارچ کو اس کی سماعت کی تھی، لیکن اس مقدمے کو خارج کردیا تھا۔
اپنی درخواست میں عابدہ ملک نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے شوہر اور فون کال کرنے والے شخص کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ فون کال میجر احسن نے کی تھی۔ یہ بات چیت 22 نومبر 2012ء کو تقریباً چار بجے سہہ پہر کو ہوئی تھی۔ اس کے اگلے دن ان کےشوہر جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے گئے اور اس کے بعد سے لاپتہ ہوگئے۔
تاصیف علی نے اپنی گمشدگی سے پہلے فرنیچر کا کاروبار شروع کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل آصف یاسین ملک کو حکم دیا کہ لاپتہ شخص اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی افسر کی تلاش کے سلسلے میں کی جانے والی پولیس کی تحقیقات میں تعاون کریں، جنہوں نے مبینہ طور پر اس کو اغوا کرلیا تھا۔
بدھ کے روز ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کی توجہ دو دسمبر کے ایک خط کی جانب مبذول کروائی، جس میں کہا گیا تھا سیکریٹری دفاع کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر گئے ہیں۔
ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی لیگل برانچ نے وزارتِ دفاع کے ذریعے پولیس سے کہا تھا کہ اس مقدمے کی فائل جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) منتقل کردی جائے تاکہ اس آفیسر پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکے۔
یہ درخواست ڈی آئی جی پولیس لاہور کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے کی گئی تھی۔
اس خط میں پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 جسے آرمی ریگولیشنز (رولز) 373 کے ساتھ متصل کرکے پڑھا جاتاہے، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے حکم کی تکمیل کے لیے مجاز اتھارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ پولیس کے محکمہ سے لے لیا جائے۔
گزشتہ سال گیارہ جون کو ایم آئی ڈائریکٹوریٹ نے کورٹ کے سامنے دلیل دی تھی کہ ایک آرمی آفیسر اور ایک فوجی کارروائی کا ماتحت کی انوسٹی گیشن یا انکوائری پولیس یا پھر یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی نہیں ہونی چاہیٔے۔
ملٹری انٹیلی جنس نے اس بات کو رد کردیا تھا کہ تاصیف علی ان کی تحویل میں ہے۔
بدھ کے روز ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل ایڈوکیٹ محمد ابراہیم ستّی نے دلیل دی کہ پولیس کو میجر علی احسن کا بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے متعلقہ کمانڈنگ آفیسر سے اجازت حاصل کرنی چاہیٔے تھی۔
لیکن جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اس طرح کی تحقیقات پولیس کی ذمہ داری تھی۔
عابدہ ملک کی نمائندگی ریٹائرڈ کرنل انعام الرحمان نے کی، انہوں نے دلیل دی کہ فوج کے متعلقہ قوانین اور ضوابط پولیس کو انوسٹیگیشن کی اجازت دیتے ہیں اور یہاں تک اگر کوئی فوجی افسر جرائم میں ملؤث پایا جاتا ہے تو اس کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔
کرنل انعام الرحمان نے عدالتی بینچ کو مطلع کیا کہ انہوں نے اعلیٰ سطح کے فوجی حکام کے خلاف توہین عدالت کی ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی، کہ وہ مبینہ طور پر پولیس کی تفتیش میں رکاوٹ بن رہے ہیں ملزم میجر احسن کو ڈھال فراہم کرکے اس کو تحفظ دے رہے ہیں۔
اس درخواست میں سیکریٹری دفاع، سابق فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ راشد محمود اور جنرل ہیڈکوارٹرز ملٹری سیکریٹری لیفٹننٹ جنرل مظہر جمیل کو نامزد کیا گیا تھا۔
لیکن عدالت نے کہا کہ اس معاملے کو اس وقت اُٹھایا جائے گا جب یہ اہم مقدمہ دس مارچ کو دوبارہ شروع ہوگا۔