• KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm
  • KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm

ٹی ٹی پی جنگ بندی

شائع March 4, 2014
طالبان کی چال ہوسکتی ہے، حملے جاری تو پھر جنگ بندی بے معنیٰ، ریاست جلدبازی نہ کرے۔فائل فوٹو۔۔۔
طالبان کی چال ہوسکتی ہے، حملے جاری تو پھر جنگ بندی بے معنیٰ، ریاست جلدبازی نہ کرے۔فائل فوٹو۔۔۔

فیصلہ زیادہ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سےسنیچر کو اعلان کردہ جنگ بندی نے بہت سے سوالات بنا جواب دیے چھوڑدیے ہیں لیکن کم از کم یہ بہت واضح ہے: طالبان کی آنکھیں چکا چوند ہوچکیں اور ایسا پاکستانی ریاست کے ٹھوس اور بھرپور جواب دینے کی وجہ سے ہوا ہے۔

پولیو ٹیم کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور فوج کی گولہ باری کے بعد واضح ہوگیا تھا کہ اگرتشدد بدستور جاری رہتا ہے تو پھر حکومت مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ سیاستدان اور فوج، تمام عناصر طالبان کو محدود کرنے اور انہیں پیچھے دھکیلنے کی خاطر بھرپور قوت کے استعمال پر آمادہ تھے۔

اس بات کو مذاکرات کے سب سے بڑے حامی، سیاسی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے، بتدریج اس حقیقت کےاعتراف سے بھی مدد ملی کہ عسکریت پسندوں کی پُرتشدد کارروائیوں کے ماحول میں مذاکرات کا جاری رہنا بہت مشکل ہے۔

اس کے بعد، وہاں طالبان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا: اگر عسکریت پسند اور دہشت گرد اپنی پُرتشدد کارروائیاں بدستور جاری رکھتے تو پھر ردِ عمل میں ریاست کے سخت اور بڑھتے حملوں سے ان گروہوں کو شدید نقصانات پہنچتے۔ جنگ بندی کے بعد، چھوٹی سی پسپائی اختیار کرکے طالبان کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لمحے، یہ جاننا مشکل ہے۔

ایک کے لیے، جنگ بندی فوری طور پرتعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی کی جانب نہیں لے جاسکتی۔ بلاشبہ، ایک مضبوط ریاستی نقطہ نظر سے، عسکریت پسند گروہوں کو چاہیے کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے، سب سے پہلے اس پر عمل کر کے دکھائیں اور اپنے ذیلی گروہوں اور ان سے منسلک تنظیموں کو اپنے کہے کا پابند کریں۔

اگر حملے جاری رہتے ہیں، اور جیسا کہ وہ ماضی میں بھی کرچکے کہ اپنے کسی ذیلی گروہ یا تنظیم کی طرف سے کیے گئے کسی خاص حملے کی مذمت کیے بغیر، طالبان سادہ الفاظ میں دعویٰ کردیتے ہیں کہ وہ ان حملوں کے ذمہ دار نہیں تو پھر جنگ بندی بے معنیٰ ہوجائے گی۔

اس بات کی تصدیق کیے بغیر کہ آیا ٹی ٹی پی واقعی تیار ہے اور جنگ بندی موثر رکھنے کو یقینی بناچکی، فوری طور پر مذاکرات کی بحالی سے، ریاست نے حالیہ ہفتوں میں جو موقف اختیار کرکے کامیابی حاصل کی ہے، وہ ضائع ہوجائے گی۔

ایک کے لیے، مذاکراتی عمل بنا ڈیڈ لائن کے نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا، حکومت اصرار کرے کہ اس کے نتیجے میں جو بھی معاہدہ ہوگا وہ مقامی سطح تک محدود ہوگا اور سب سے اہم یہ کہ مذاکرات آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ہی کیے جائیں گے۔ وہاں مشترکہ قدر تلاش کی جائیں اور بلاشبہ یہ تلاش بھی کی جاسکتی ہیں تاہم بحث لامحدود نہیں ہونی چاہیے۔

بہرحال کچھ بھی ہو، ریاست کو جنگ بندی پر محتاط ہی رہنا چاہیے۔ اس سے قبل کہ ریاست ایک بار پھر بھرپور قوت سے ان کی کلائی پر ہاتھ ڈالے، یہ طالبان کی طرف سے قیادت کی کہیں اور منتقلی اور خود کو منظم کرنے کی بھی چال ہوسکتی ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنے والے دنوں میں نئے سرپرائز ملیں گے، کئی موڑ آئیں گے، سربستہ راز کہانی کے کئی اسرار کھلیں گے، اور یہ بات بھی سامنے آسکے گی کہ کس طرح ان عسکریت پسند گروہوں سے نمٹا جائے۔

غلط یا نا ممکن بات کچھ بھی ہو، پاکستانی ریاست طویل عرصے تک جواب سے گریزاں رہی۔ بہرحال، وہاں سرنگ کے خاتمے پر روشنی ضرور موجود ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Mar 04, 2014 06:16pm
کالعدم دہشتگرد طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان قومی اتفاق رائے منتشر کرنے کی سازش ہے۔ دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی قابلِ قبول نہیں۔ تمام لشکر، سپاہ اور طالبانِ خون کو فوری طور پر اور غیر مشروط ہتھیار ڈالنا پڑے گا۔ پاکستان کی بقاء کیلئے اِن دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی مسئلے کا حل نہیں، ریاستی ادارے اپنا آپریشن شروع کریں اور اِن خوارج و تکفیری طالبان کے مزید ٹائم لینے کے دھوکے میں نہ آئیں- یاد رکھیں، پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لہذا آپریشن شروع کیا جائے اور تمام دہشت گردوں کے مکمل خاتمے یا سرنڈر کرنے تک جاری رکھا جائے۔ طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جائے،اور پھر جو بھی لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں اُن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ملک سے انتہاپسندی، نام نہاد فرقہ واریت اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت ترین سزا کا دیا جانا بھی وقت کی اولیں ضرورت ہے۔

کارٹون

کارٹون : 19 ستمبر 2024
کارٹون : 17 ستمبر 2024