کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ
26 فروری 2013 کو یونائیٹڈ نیشنز ورکنگ گروپ نے اینفورسڈ اینڈ انوالینٹیری ڈس اپیرینسز(ڈبلیو جی ای آئی ڈی) پاکستان پر اپنی رپورٹ شائع کی، جس کے لئے اس نے ستمبر 2012 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا- رپورٹ میں مسلسل جاری جبری گمشدگیوں پر تشویش ظاہر کی گئی تھی اور اس نے حکومت کے سامنے بہت سی سفارشات پیش کی تھیں-
اس بات کو ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے، لیکن پاکستان جبری گمشدگی کے اس سنگین جرم کو معنی خیز طریقے سے حل کرنے کے بجائے اس سے دور ہٹتا جارہا ہے-
حکومت نے پچھلے سال جو قوانین اور پالیسیاں بنائیں انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ورکنگ گروپ کی رپورٹ کا اور بین الاقومی انسانی حقوق کے ساتھ پاکستان نے اپنے عہد کا مذاق اڑایا ہے- اس رپورٹ کا، خاص طور پر، اسکی سفارشات کا گہرائی سے جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے متعلق ایک نیا قانون بنایا جارہا ہے-
ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے پاکستان سے سفارش کی تھی کہ وہ جبری گمشدگیوں سے تمام افراد کو محفوظ رکھنے کے لئے (کنونشن آن اینفورسڈ ڈس اپیرِینس ) بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کرے- لیکن حکومت نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے- بلکہ اس کے برعکس، اس نے سپریم کورٹ کی اس کوشش کو ختم کرنے کی کوششش کی جو کنونشن کے اصولوں پر عمل درآمد کرنا چاہتی تھی-
دسمبر 2013 میں 'محبت شاہ' مقدمے کے ایک قابل تعریف فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ کنونشن آن اینفورسڈ ڈس اپیرینس پاکستان پر لاگو ہوتا ہے اور اس کا گہرا تعلق زندہ رہنے کے حق سے ہے جسکی آئین میں ضمانت دی گئی ہے- انٹرنیشنل کنویننٹ آن سویل اینڈ پولیٹیکل رائٹس(آئِی سی سی پی آر) بھی زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتا ہے جس پر پاکستان نے 2010 میں دستخط کئے تھے-
ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے یہ سفارش بھی کی تھی کہ جبری گمشدگی کے جرم کو کنونشن کی تعریف کے مطابق کریمنل کوڈ میں شامل کیا جائے- پاکستان میں اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگوں کی 'گمشدگی'جس میں کبھی توریاست کا ہاتھ ہوتا ہے اور کبھی نہیں، جبری گمشدگیوں کو ابھی تک خصوصی طور پر جرم قرار نہیں دیا گیا ہے- یہ خاص طور اس لئے بھی قابل افسوس ہےکیونکہ پاکستان نے 2012 کے اپنے ریویو میں ایک سفارش منظور کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دیا جائے-
ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کوسیکیورٹی کے سنگین خطرہ کا سامنا ہے- گو کہ اس نے اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی تھی کہ بین الاقوامی قانون کے تحت، جس میں ڈیکلیریشن آن دی پروٹیکشن آف آل پرسنسز فرام اینفورسڈ ڈیس اپیرئنس کی شق 7 اور آئِی سی سی پی آر شامل ہے، جبری گمشدگیوں کو ان حالات کے تحت کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا-
اس ضمن میں، ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے پاکستان کے دہشت گردی سے لڑنے کے قانون کے خلاف سیکیورٹی ایجنسیوں کو وسیع اختیارات دیئے جانے پر تشویش ظاہر کی ہےاور سفارش کی ہے کہ پاکستان اینٹی-ٹیریرزم ایکٹ 1997 میں اور ایکشنز(سیول پاور کی مدد) ریگیولیشنز 2011 میں شامل دفعات میں ترمیم کرے، کیونکہ ان کی وجہ سے جبری گمشدگیوں کی ہمت افزائی ہوتی ہے-
حکومت نے ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی سفارشات نظرانداز کردیں اور تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013 تشکیل دیا جو غالباً اب تک ملک میں دہشت پسندی سے لڑنے کے لئے جتنے قوانین نافذ ہوچکے ہیں ان میں سب سے ظالمانہ قانون ہے- اس قانون کی شق 9 میں حکومت کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی تحویل میں لئے جانے والے لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی پابند نہیں ہے، اور کسی بھی 'معقول وجہ' کی بنیاد پر ان کی جگہ اور گرفتاری کی وجوہات کو بتانے کی ذمہ دار نہیں ہے-
یہ دفعہ قانون کی حکمرانی کی توہین ہے- اس کے تحت گرفتار شدہ افراد کو قانون کا تحفظ حاصل نہیں ہے، اور نہ ہی انھیں قانونی مجرم کا درجہ دیا گیا ہے، جسکی آئی سی سی پی آر کے تحت نیز قانون کی عمومی بالا دستی کے تحت قطعی اجازت نہیں بلکہ یہ جبری گمشدگی کے عمل کو موثر طور پر جائز قرار دیتا ہے- ورکنگ گروپ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معاف نہ کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ کسی بھی ریاستی اہلکار پر جبری گمشدگی میں ملوث ہونے پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی-
سپریم کورٹ نے 'محبت شاہ' کے مقدمہ میں جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے جبری گمشدگیوں کے شریک جرم افراد کو قانون کے دائرہ میں لانے کا اعادہ کیا جسکی ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے سفارش کی تھی-لیکن حکومت نے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دی ،اور کورٹ سے درخواست کی کہ ان ریمارکس کو خارج کردیا جائے جس میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو جبری گمشدگی میں ملوث دکھایا گیا ہےکیونکہ اس سے'افواج کی حوصلہ شکنی 'ہوتی ہے-
اس کے علاوہ پی پی او ریاستی اہلکاروں کو کھلی معافی دیتا ہے کیونکہ ان کی کارروائیاں 'نیک نیتی' پر مبنی تھیں اور اس میں اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ جن افراد کو اس آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے تحویل میں لیا گیا تھا ان پر بھی اس کا نفاذ ہوگا-
ماضی کے واقعات کو بھی قابل معافی قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے جبری گمشدگی میں ملوث لوگوں کو جوابدہ قرار دینے کے معاملات میں جو اقدامات کئے تھے وہ بے اثر ہوجائنگے اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو بریت کی جو سہولت حاصل ہے وہ اور بھی مضبوط ہوجائیگی ، خاص طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تعلق سے-
ہمیں امید ہے کہ جبری گمشدگیوں کا مجوزہ قانون---- جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے آخری مراحل میں ہے ---- ورکنگ گروپ کی سفارشات پر سنجیدگی سےغور کرے گا،ایسا کرنے سے انکار کا مطلب ہوگا وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اپنے اس وعدے کو پورا کرنے میں ہمیشہ کی طرح ناکام ہوگئی ہے کہ پاکستان بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کرے گا-
ترجمہ: سیدہ صالحہ