طویل موسمِ گرما
جُوں جُوں گرمیوں کی آمد قریب آرہی ہے اور درجہ حرارت کا پارہ چڑھ رہا ہے، ویسے ویسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
روزنامہ 'ڈان' کے مطابق پیداوار طلب سے کہیں دور ہے، جس کی بنا پر پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیز نے بجلی کی فراہمی کا انتظام کرنے کی خاطر روزانہ دس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ بحال کرنے کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ خبر میں پیپکو کے ایک افسر کا حوالہ دیتے ہوئے خبردارکیا گیا کہ اس برس بھی بدترین موسمِ گرما کا سامنا کرنے کے لیے عوام خود کو تیار کرلیں۔
وہ گھریلو اور صنعتی صارفین جو اس خطّے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی خردیتے ہیں، ان کے لیے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ روزانہ بار، بارہ گھنٹے بنا بجلی کے گزاریں۔
ساتھ ہی، حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی بعض کمپنیز کو گیس کی سپلائی بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بعض دیگر کمپنیز کو تیل کی قلت کا سامنا ہے، جس کی بنا پر بجلی کی سنگین قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔
گذشتہ مئی کے دوران منعقدہ عام انتخابات میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت نے بجلی اور گیس کی قلت دور کرنے کے وعدے پر کامیابی حاصل کی تھی، اسی کی وجہ سے عوام کی اکثریت نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کو بھی قبول کرلیا تھا۔
صورتِ حال کی بہتری کی امید میں انہوں نے ایسا کچھ کیا بھی۔ بعد ازاں، فیصل آباد میں بجلی کی عدم فراہمی پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کے اوپر پولیس کی بھاری نفری ٹوٹ پڑی۔ اس واقعے کے بعد پھر کوئی سڑکوں پر نہیں نکلا۔ تو کیا عوام خاموشی سے تکلیف برداشت کرتی رہے گی؟ یہ ممکن نہیں۔ ہنی مون کا دور ختم ہوچکا۔
بجلی کی موجودہ پیداوار میں اضافہ درکنار، افسوس کہ حکومت نے پاور سیکٹر میں اصلاحات کے موقع سے بھی کچھ خاص فائدہ نہیں اٹھایا حالانکہ اس سے گھروں، بازاوں اور کارخانوں کے واسطے فراہمی بہتر بنانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔
چار سو اسّی ارب روپے کے گردشی قرض کی یکمشت ادائیگی کے باوجود گذشتہ نو ماہ سے بھی کم عرصے کے دوران پاور کمپنیز اور انہیں تیل فراہم کرنے والوں کے غیر ادا شدہ بِلوں کی رقم ایک بار پھر دو سو ارب روپے سے تجاوز کرچکی۔
اس کی وجوہات صاف ہیں۔ حکام نے پاور سیکٹر میں اصلاحات کے لیے توانائی پالیسی کا صرف وہ حصہ نافذ کیا جس کا تعلق بجلی کے نرخوں میں اضافے سے متعلق ہے۔
بھاری مینڈٹ مگر سیاسی عدم آمادگی کے باعث اب تک بجلی چوری، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات پر قابو پانے اور پبلک و پرائیوٹ صارفین سے ادا نہ کیے گئے واجبات کی وصولی کی خاطر کچھ نہیں کیا جاسکا ہے۔
پبلک سیکٹر میں قائم پاور کمپنیز کو ناقص گورنس، اداروں کی کمزوریوں، نااہلی، بدعنوانی اور مسابقت کے فقدان جیسے مسائل کا سامنا ہے، جن کا حل کیے جانا ابھی باقی ہے۔
بلاشبہ، انرجی سیکٹر کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ 'وسیع اور گہرے' ہیں، اس کے باوجود حکومت نے نئی نسل کے لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی کوششیں کی ہیں، جس کا اسے کریڈٹ نہ دینا غیر منصفانہ ہوگا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات جیتنے اورحکومت بنانے کے فوری بعد جو دعوے کیے گئے اور ان سے جتنی توقع تھی، حکومت نے اس سے کہیں کم اقدامات اٹھائے ہیں۔