قسمت کے دھنی
آصف علی زرداری ( پی پی پی)، الطاف حسین(ایم کیو ایم ) ، اور اسفند یار ولی (اے این پی) اکثر یہ سوچتے ہونگے کہ انہوں نے ایسا کیا، کیا ہے جو عمران خان (پی ٹی آئی) اور نواز شریف (پی ایم ایل-ن) جیسے لوگوں نے نہیں کیا، جس کی بنا پر عوامی اردو الیکٹرونک میڈیا ان دونوں حضرات کے ساتھ اتنا ہمدرد اور مخلص ہے-
حالانکہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ -ن کی اکثریتی کامیابی اور خیبر پختون خواہ کی باگ دوڑ اے این پی کے ہاتھ سے نکل کر تحریک انصاف کی جھولی میں گرے نو ماہ گزر چکے ہیں، لیکن جہاں تک ملک اور خیبر پختون خواہ میں معاشی اور امن و امان کی صورتحال کا تعلق ہے، یہ نو ماہ پی پی پی کی قیادت میں اتحادی حکومت کے دو سال ( پانچ سال نہ سہی) کے برابر ہیں-
پچھلے نو ماہ میں معیشت کی حالت مزید دگرگوں اور ملک میں انتہا پسند دہشتگردوں کے حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے-
ظاہر ہے روایت کے مطابق ملک کو اس حال تک پنہچانے کی ذمہ داری موجودہ حکومت، پچھلی حکومت پر ڈال رہی ہے- طرح جسطرح سابقہ حکومت نے اس سے پہلی حکومت پر ڈالی تھی، اور یہ سلسلہ سالوں سے یونہی چلتا چلا آرہا ہے-
لیکن مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت، اور خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے دوسروں کی نسبت خوش قسمت ہیں-
انکی جان کے پیچھے الیکٹرونک میڈیا، عدلیہ اور آرمی اسٹبلشمنٹ کے بعض دھڑ ہاتھ دھو کر نہیں پڑے ہوۓ، جس طرح پی پی پی کی قیادت میں اتحادی حکومت کو طعن و تشنہ کا نشانہ بنایا جاتا تھا، (ایسا نہیں ہے کہ اتحادی حکومت، مسلم لیگ-ن اور تحریک انصاف کے سیٹ اپ سے زیادہ قابل تھی)-
سابقہ پی پی پی - ایم کیو ایم - اے این پی کا درد سر بننے والوں کے ہاتھوں اتنی دلپزیری ہوتے دیکھ کر، لوگوں کو یہی توقع تھی مرکز میں موجود مسلم لیگ -ن اور خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف، معیشت کے ڈگمگاتے قدموں کو سہارا کے لئے کچھ جراتمندانہ اقدامات ، اور انتہا پسندی کی لعنت سے نمٹنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں گے-
لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، خیبر پختون خواہ کی طرح وہاں تحریک انصاف کی حکومت، اور پارٹی بذات خود انتشار کا شکار ہوتی چلی گئی-
سنہ دو ہزار گیارہ میں تحریک انصاف کی شہرت ( خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی شہری مڈل کلاس کے درمیان ) بام عروج پر تھی، مئی، سنہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بھی اس نے اپنی مقبولیت کا شاندار مظاہرہ کیا-
نو مہینے گزر گۓ، اور پارٹی خیبر پختون خواہ کو معاشی، سماجی اور سیاسی جہنم سے نکالنے میں بالکل ناکام رہی جسکی طرف یہ صوبہ پچھلی ایک دہائی سے سرک رہا ہے- صورتحال کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش میں تحریک انصاف مخدوش اور بےجان دکھنے لگی ہے-
مرکز میں مسلم لیگ-ن کی حکومت دکھنے میں تو بڑی پرسکون لگتی ہے (خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی بنسبت) لیکن اس کے چہرے پر پھیلا یہ ظاہری سکون اور خمار آلود مسکراہٹ ممکن ہے محض بےحسی ہو-
مسلم لیگ-ن نے کوئی خاص کارنامہ اب تک انجام نہیں دیا- پارلیمنٹ میں اس کے پاس بھاری اکثریت ہے، عدلیہ میں یہ دوستانہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور الیکٹرونک میڈیا والے اس کے لنگوٹیے یار ہیں ان سب کے باوجود یہ گورنمنٹ اس طرح حرکت نہیں کر رہی جسطرح اتنے سارے اثر و رسوخ کے حامل دوستوں کی چہیتی حکومت کو کرنا چاہیے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں، مسلم لیگ-ن اور تحریک انصاف سینٹر-رائٹ جماعتیں ہیں اور اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملک کو لاحق دہشتگردی کا مسئلہ کس طرح اسکی کی معیشت کو تباہ کر رہا ہے اور دونوں نے اس سے نمٹنے کا تقریباً ایک ہی حل پیش کیا تھا، ان سب کے باوجود یہ دونوں ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے ہیں-
آج یہ دونوں ہی الیکشن کے دوران کیے گۓ وعدوں کے قیدی ہیں-
میرے خیال سے ان دونوں کو ہی یہ توقع نہیں تھی کہ ملک کی پہلے ہی سے خستہ صورتحال ان چند مہینوں میں اس تیزی کے ساتھ ڈرامائی انداز میں بدتر ہوتی چلی جاۓ گی-
اور یہ سب کچھ ایسے انداز میں ہوتا چلا گیا کہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے پیش کردہ نریٹو (Narrative ) اور حل دیکھنے اور سننے میں لغو لگنے لگے-
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک سیاسی بصیرت کی حامل ڈائنامک حکومت تیزی سے بدلتی صورتحال کے پیشنظر اپنی پوزیشن، نریٹو اور پالیسی کو از سرنو ترتیب دیتی-
لیکن افسوس، بدلتی ہوئی صورتحال کے بیچ مرکز میں مسلم لیگ -ن کی حکومت جیسے سکتے میں آگئی اور ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ گئی، جبکہ تحریک انصاف نے انتہائی متضاد اور بے ہنگم انداز میں سارا غصّہ خیالی مخالفوں (امریکی لابی، لبرل فاشسٹ وغیرہ ) پر نکالنا شروع کر دیا-
خیبر پختون خواہ میں پارٹی کی ایک کے بعد ایک پالیسی ناکام ہونے کے بعد تحریک انصاف کے چیف عمران خان ڈرامائی طور پر متحرک اور مضطرب ہوکر لنترانیوں پر اتر آۓ، نتیجتاً انہوں نے میڈیا میں بناۓ گۓ اپنے بہت سے دوست کھونا شروع کر دیے -
میڈیا نے انکے ساتھ اپنا رویہ سخت کر دیا ہے- حالانکہ میں ابھی حال ہی میں انکے ایک دیرینہ دوست (جانے مانے ٹی وی اینکر) نے خان صاحب کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے پلیٹ فارم بھی مہیا کیا-
اور وہاں بھی خان صاحب گڑبڑا گۓ اور سابقہ ملٹری چیف، جنرل پرویز کیانی کا غلط حوالہ دے گۓ، جنکی طرف سے فوراً ہی ایک ناراض تردید جاری کی گئی، اور یوں عمران خان ' انتہاپسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لئے آرمی کے امکانات کے بارے میں غلط اور مایوس کن معلومات پھیلانے پر' ایک بار پھر تنقید کی زد میں آگۓ-
جس انداز میں میڈیا خان پر تنقید کر رہا ہے وہ اس کے عادی نہیں ہیں، یا یوں کہہ لیں جسطرح وہ سابقہ حکومت پر تنقید کرتے آۓ ہیں وہ خود ایسی تنقید کے عادی نہیں ہیں-
ان تنقیدوں کے جواب خان صاحب نے انتہائی غیر پیشہ وارانہ اور بے ربط انداز میں دیا، بعض اوقات وہ ایسے جھنجھلاۓ ہوۓ سیاست دان لگتے، جو یہ مانتا ہو کہ انکی ساکھ بگاڑنے اور انہیں 'امریکیوں کے کہنے پر ' انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت سے روکنے کے لئے میڈیا کو ڈالر دیے جاتے ہیں-
جبکہ دوسری طرف، مسلم لیگ-ن کی حکومت، الیکٹرونک میڈیا، عدلیہ حتیٰ کہ اپنی مخالف پارٹی پی پی پی کی طرف سے بھی خیر خواہی کے بے مثال مظاہرے سے لطف اندوز ہو رہی ہے-
ابھی بھی اس کے پاس ایک موقع ہے کہ ملک کے معاشی بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹنے اور ملک میں پھیلی ہوئی انتہا پسندی کی لہر کو واپس دھکیلنے کے لئے سخت نہ سہی تو فیصلہ کن اقدامات ضرور کرے-
مجھے یقین ہے ، مسلم لیگ-ن کی حکومت یہ جانتی ہے کہ ملک کی شکستہ معیشت کو دوبارہ زندہ کرنے کی انکی پالیسی اس وقت تک ایک انچ بھی نہیں آگے بڑھ سکتی جب تک حکومت مضبوط ہاتھوں سے انتہا پسند دہشتگردی کے مسئلے سے نمٹنے کا ارادہ نہیں کر لیتی-
میں سوچتا ہوں کہ نواز شریف صاحب جن کے اتنے سارے دوست اھم جگہوں پر موجود ہیں، آخر کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟
اس بات میں بڑی حد تک سچائی ہے کہ انتہا پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کی ڈرامائی طور پر تشہیر کر کے وزیر اعظم نے بال عمران خان کے کورٹ میں ڈال دی ہے-
خان صاحب اس بال کو تھوڑی دیر ٹٹولتے رہے، اور اسی کشمکش میں انکی مجموعی ساکھ اور وضح داری کی آب و تاب تھوڑی کم ہو گئی-
امن مذاکرات کے سب سے بڑے وکیل عمران خان کی بولتی بند ہو گئی، اور پچھلے نو ماہ میں فوجیوں، پولیس والوں اور شہریوں پر دہشتگردی کے ہلاکت خیز حملوں میں نمایاں اضافے کی بنا پر ان کے طویل عرصے سے انتہا پسند تشدد کے مسئله پر جاری 'عذر خواہ' تھیسس کے لئے اب اپنی جگہ بنانی مشکل ہوگئی ہے- اس طرح بال واپس وزیر اعظم صاحب کے کورٹ میں آگئی-
ان کے سب سے بڑے مخالف کا پتہ صاف ہوگیا- اور وہ اب بھی میڈیا اور اکثریت حزب اختلاف پارٹیوں کی خیر خواہی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں-
لیکن ساتھ ہی، ریاست اور حکومت کی طرف سے یہ امید دم توڑتی جا رہی ہے کہ کبھی یہ اس دشمن کا کوئی قابل عمل انتظام کر پائیں گے جو مسلسل اس تباہ حال ملک کی روح اور جسم پر ایک کے بعد ایک زخم لگاتا چلا جا رہا ہے-
وزیر اعظم اور ان کی حکمران پارٹی کے لئے اب کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا کہ وہ پارٹی کی صلح جو پالیسی کو ختم کریں، اپنے انتخابی گڑھ، پنجاب سے آگے بھی نظر دوڑائیں اور دہشتگردوں کے خلاف سخت نظریہ اپنائیں اور کارروائی کریں-
پنجاب پاکستان میں ہے، پنجاب میں پاکستان نہیں ہے- وزیر اعظم کے پاس مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں- دہشتگردی کے سب سے زیادہ شکار ہونے والے تینوں صوبوں سندھ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہو چکا ہے-
ترجمہ: ناہید اسرار