بدمعاشوں کی جنت
اگرچہ، لیاری کے بدنصیب باشندوں کے واسطے گولیاں چلنے کی آوازیں اور دستی بموں کے دھماکے کوئی اجنبی نہیں لیکن بدھ کو پُرہجوم بازار میں بدترین حملے نے، یقینی طورپر کراچی کے سب سے زیادہ نظر انداز ہمسائے میں سفاکیت کے نئےمعیار کو جنم دیا ہے۔
ماضی میں بھی، جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان یا پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان کی جھڑپوں میں چلنے والی گولیوں کی زد میں آکر، بے گناہ شہری اپنی جان سے جاتے رہے ہیں لیکن بدھ کو کیے گئے حملے سے نظر آتا ہے کہ علاقے میں خوف و دہشت پھیلانے کے لیے جرائم پیشہ افراد نے جان بوجھ کر براہ راست شہریوں کو نشانہ بنایا۔
اطلاعات کے مطابق، رینجرز آپریشن کے دوران جرائم پیشہ گروہ کا ایک سرکردہ رکن مارا گیا اور بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے خریداری میں مصروف معصوم شہریوں کا قتلِ عام کیا۔ جرائم پیشہ کے اس حملے میں کم از کم چودہ افراد اپنی جانوں سے گئے، مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔
ماضی میں، گروہوں کے مسلح تصادم سے قبل شہریوں کی خبرداری کے لیے اعلان کیا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ قتلِ عام سے پہلے اس طرح کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
کبھی متحرک سیاسی سرگرمیوں کے مرکز لیاری کے اطراف کی محنت کش بستیاں، ریاست اور سیاسی جماعتوں کی طرح جرائم پیشہ گروہوں کے سامنے ہتھیار پھینک چکی ہیں۔
شہر کے اندر دیگرعلاقوں پر چھائی مافیا کی طرح، لیاری بھی باہر سے آنے والوں کے واسطے ایسا 'نو گو ایریا' بن چکا، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی داخل نہیں ہوپاتے۔ یہاں کی سڑکوں پر، بے تحاشہ ہتھیاروں سے لیس، جرائم پیشہ گروہوں کے بدمعاش نوجوانوں کا راج ہے۔
یہ صورتِ حال برسوں میں اس مقام تک پہنچی ہے، جس کا ذمہ دار سیاسی جماعتوں، بشمول پی پی پی اورایم کیو ایم، کی جانب سے جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جرائم پیشہ مسلح گروہ اب اس قدر مضبوط ہوچکے کہ انتخابات میں ان کے سرغنہ کی مرضی سے لیاری سے امیدوار 'نامزد' کیے جاتے ہیں۔
لیاری میں مضبوط سیاسی جڑیں رکھنے والی پی پی پی پر جرائم پیشہ گروہوں کے لیے گنجائش پیدا کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ لیاری کو جرائم پیشہ گروہوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے سیاسی آمادگی دکھائی نہیں دیتی۔
گذشتہ کئی ماہ سے کراچی اور لیاری کے بعض مخصوص حصوں میں جاری ایک بڑے آپریشن کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے اب تک لیاری کو جرائم پیشہ گروہوں سے مکمل طور پر پاک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جب تک لیاری کے جرائم میں ملوث سرکردہ سرغنہ گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جاتے اور سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی ختم نہیں کردیتی ہیں، تب تک یہاں کے باشندوں کو امن کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوگا اور جس طرح کا قتلِ عام بدھ کو دیکھا گیا، ویسی قتل و غارت تواتر سے جاری رہے گی۔