مذاکرات کے لیے آزاد پُرامن علاقے کا مطالبہ
اکوڑہ خٹک: کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایک پُرامن آزاد علاقے کا تعین کرے، جہاں عسکریت پسند رہنما بغیر کسی خوف کے لیے حکومتی کمیٹی کے ساتھ منعقد ہونے والے مذاکرات کے لیے بلاخوف و خطر آسکتے ہوں۔
پیر کے روز بی بی سی اردو سروس سے اکوڑہ خٹک میں بات کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ فرنٹیئر کور اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے بہت سے علاقوں میں چوکیاں قائم کررکھی ہیں، جن کی وجہ سے طالبان آزادانہ نقل و حرکت کے قابل نہیں رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باقاعدہ مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد اس سلسلے میں متعدد مرتبہ چکر لگانا پڑے گا، اس لیے ایک آزاد پُرامن علاقہ ایسا ہونا چاہیٔے، تاکہ مذاکرات بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھ سکیں۔
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اس وقت طالبان قیادت گرفتاری کے خوف سے روپوش ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ٹی ٹی پی کے سربراہ ملّا فضل اللہ کے ٹھکانے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔
پشاور بیورو:
طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان نے تجویز پیش کی ہے کہ جنوبی وزیرستان کے کم ازکم دو علاقوں سے فوجیوں کی واپسی اور عام معافی، عسکریت پسندی کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
انہوں نے خیبرپختونخوا کی کابینہ سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے اراکین کو بتایا ’’جنوبی وزیرستان کے علاقوں مکین اور لڈھا سے فوجی انخلاء اور عسکریت پسندوں کو عام معافی کا معاملہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ کے رہنماؤں کے درمیان اجلاس کے دوران زیرِ بحث آئے گا۔‘‘
اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے پریس ریلیز میں جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات ایڈوکیٹ اسرار اللہ نے پروفیسر ابراہیم کا حوالہ دیتےہوئے کہا کہ اگر فوج محسود قبائل کے پورے علاقے کو چھوڑ نہیں سکتی تو مکین اور لڈھا سے اپنے دستے نکال سکتی ہے۔
پروفیسر ابراہیم نے پچھلے ہفتے شمالی وزیرستان میں طالبان شوریٰ کے ساتھ مشاورت کی تھی، انہوں نے کہا کہ ’’حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان نے کوئی مطالبہ یا شرط مقرر نہیں کی ہے۔ یہ محض تجاویز ہیں۔‘‘
طالبان شوریٰ حکومتی کمیٹی سے مکین یا لڈھا میں مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود ، دونوں ہی کا تعلق لڈھا کے علاقے سے تھا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر ابراہیم خان اور مولانا یوسف شاہ نے طالبان شوریٰ سے کہا تھا کہ وہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر محمد اجمل خان کو رہا کردیں، اور شوریٰ نے ان کو رہا کرنے سے انکار نہیں کیا تھا۔
یاد رہے کہ محمد اجمل خان کو ستمبر 2010ء میں اغوا کیا گیا تھا۔
ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی وائس چانسلر محمد اجمل خان کو حکومتی کمیٹی سے ملاقات کے بعد رہا کرسکتی ہے۔ ایک ذریعہ نے بتایا کہ ’’انہیں جلد رہا کیا جاسکتا ہے۔‘‘
پروفیسر ابراہیم خان نے کہا کہ انہوں نے ٹی ٹی پی سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز گیلانی کی رہائی کے لیے بھی بات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ طالبان یقینی طور پر اپنے اُن لوگوں کے لیے عام معافی طلب کریں گے، جو حکومت کی تحویل میں ہیں یا حکومت کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
پریس ریلیز کے مطابق طالبان کمیٹی نے تین سو خواتین، بچوں اور غیر جنگجو عمر رسیدہ افراد کی ایک فہرست ان کی رہائی کے لیے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے حوالے کی تھی اور ایک اور فہرست ان کی طرف سے دی جاسکتی ہے۔
ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ افراد سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں، لیکن فوج نے اس کی تردید کی تھی۔
پی پی آئی کے مطابق پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ طالبان اور حکومتی کمیٹیاں ایک یا دو دن میں ملاقات کریں گی۔ اس ملاقات کامقام، میران شاہ، بنوں ایئرپورٹ یا ایف آر بنوں، ہوسکتا ہے، اس کا انحصار دونوں فریقین کے درمیان ایک معاہدے پر ہے۔
واضح رہے کہ طالبان میران شاہ کے حق میں نہیں ہیں، اس لیے کہ وہ حافظ گل بہادر کے لیے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔