• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

غیرت' کا ڈھونگ'

شائع May 12, 2014
ریاستی ادارے ہوں یا پورا معاشرہ، سب نے پاکستان میں 'غیرت کے کلچر' کی پرورش کی ہے جو قانون کے کلچر کی دھجیاں اڑاتا ہے- -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
ریاستی ادارے ہوں یا پورا معاشرہ، سب نے پاکستان میں 'غیرت کے کلچر' کی پرورش کی ہے جو قانون کے کلچر کی دھجیاں اڑاتا ہے- -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

جارج اورویل اپنی کتاب In Shooting an Elephant میں لکھتے ہیں کہ سامراجی نظام کے تحت چلتے ہوئے کس طرح ایک انسان اپنی آزادی کھو بیٹھتا ہے- یہ کہانی ایک انگریز پولیس آفیسر کی ہے جو برما میں تعینات ہے اور سامراجی طاقت کی علامت ہے- اسے اطلاع ملتی ہے کہ ایک گاؤں میں ایک ہاتھی نے تباہی مچا رکھی ہے- پہلے تو وہ ایک پستول لیکر چل پڑتا ہے لیکن جب اسے خبر ملتی ہے کہ اس وحشی درندے نے ایک ہندوستانی قلی کو روند ڈالا ہے تو وہ اپنے آرڈرلی کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایک ہاتھی کو مارنے والی رائفل لیکر آئے- لیکن جب وہ اپنے دو ہزار مقامی آدمیوں کے ساتھ دھان کے کھیت میں پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ہاتھی تو آرام سے پودے کھا رہا ہے-

پولیس آفیسر جانتا ہے کہ اب ہاتھی سے کوئی خطرہ نہیں رہا اور بہتر یہی ہے کہ اسکو نہ چھیڑا جائے- لیکن وہ ایک اعلیٰ ترین طاقت کی علامت ہے اور اس سے جو توقعات وابستہ ہیں اس کا بوجھ اس کے لئے ناقابل برداشت ہے- مقامی آبادی جو اس سے خوفزدہ بھی ہے اور نفرت بھی کرتی ہے چاہتی ہے کہ وہ ہاتھی کو ماردے- لیکن ان کی اس وقتی توقع کو پورا کرنے کے لئے وہ بلا جواز اس ہاتھی پر جس سے کوئی خطرہ نہیں رہا کئی گولیاں چلاتا ہے- اورویل لکھتا ہے،"صاحب نے ایک نقاب اوڑھ رکھا ہے، اور اس کو اس معیار پر پورا اترنا ہے----مجھے اس ہاتھی کو مارنا ہی تھا"- کیوں؟

کیونکہ اگر میں نے اسے نہ مارا تو،" لوگ میرا مذاق اڑائینگے-"

کیا ہمارے موجودہ رہنماؤں کا ردعمل ہمیں اس سامراجی صاحب کی یاد نہیں دلاتا جنھیں اس بات کا ڈر ہے کہ لوگ ان کا مذاق اڑائینگے؟ نواز شریف کو اس دن رہنما کا تاج پہنا دیا گیا جب انھوں نے یہ باغیانہ بیان دیا تھا کہ وہ کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لینگے- بعد میں جو آرمی چیف آئے انھوں نے یاد دلایا کہ وہ ہر قیمت پر مسلح افواج کی 'عزت اور وقار' کی حفاظت کرینگے- یہ "قیمت" کیا ہے جسے دینے کے لئے ہائی کمانڈ تیار ہے اور کیوں؟ کیا اس بہادری اور جرات کا مقصد یہ ہے کہ غیر ملکی دشمنوں کے دل میں (یا ملکی دہشت گردوں میں) خدا کا خوف پیدا کیا جائے جو پاکستان کو بری نظروں سے دیکھ رہے ہیں؟

یا اس کا ہدف ملک کے وہ لوگ ہیں جو اتنے گستاخ ہوگئے ہیں کہ وہ یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا ریاستی اداروں کے ساتھ جو انکی خدمت کے لئے بنائے گئے ہیں، ان کے تعلقات خوف پر مبنی ہوں؟ خاکی کی 'عزت' کو کس سے خطرہ ہے؟ کیا خاکیوں نے ماضی میں خود اپنے ان چیفس کا مذاق نہیں اڑایا جو فرمانبرداری سے ملٹری پر سیویلین کنٹرول کے آئینی نظریہ کو سنجیدگی سے لیتے تھے- کیا جنرل کرامت کو جو ایک بیحد شریف انسان تھے خود ان کے لوگ 'باجی' نہیں کہتے تھے؟ کیا جنرل کیانی کو کم و بیش اسی قسم کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا تھا؟

سوشیالوجی اور انتھروپولوجی کے شعبوں میں'عزت کے کلچر' کو 'قانون کے کلچر' سے مختلف سمجھا جاتا ہے- رچرڈ نسبٹ اور ڈو کوہن نے اپنی تصنیف Culture of Honour: Psycology of Violence in the South میں (اس کتاب میں انھوں نے امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تجزیہ کیا ہے ) یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ عزت کا کلچر تین صورتوں میں ابھرتا اور اپنا تحفظ کرتاہے: ایسی صورت میں کہ وسائل کی قلت ہو: تشدد اور جرائم کے فائدے خطرات کے مقابلے میں زیادہ ہوں؛ قانون کی بالادستی نہ ہو، قانون کمزور ہو یا بدعنوانی کا دور دورہ ہو-

پاکستان میں ہم نے جس چیز کی پرورش کی ہے ----- چاہے وہ ریاستی ادارے ہوں یا پورا معاشرہ ----- وہ ہے عزت کا کلچر جو قانون کے کلچر کی دھجیاں اڑاتا ہے- آیا یہ کسی بالغ عورت کا حق ہو جو اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے، کسی کا یہ حق کہ اگر اس پر توہین رسالت کا الزام ہے تو اس سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، ایک مشتبہ دہشتگرد کا یہ حق کہ اس کو قانون کے دائرہ میں لایا جائے، یا آرمی کا یہ فرض کہ وہ سول حکومت کے احکامات کے مطابق عمل کرے، عزت کے نظریات (اور چوکسی سے ان کا تحفظ) ان غیر مبہم فرائض کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جن کا حکم قانون دیتا ہے-

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے وسائل محدود ہیں، طاقتور لوگ (خاص طور پر وہ جو حکومت کے اندر ہیں) قانون کو تبدیل کرکے سزا سے بچ جاتے ہیں، اور وہ افراد جو عدل و انصاف کے اداروں میں کام کرتے ہیں یا تو بیشتر بدعنوان ہیں یا مصلحت پسندی سے کام لیتے ہیں- چنانچہ ہم ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں قانون پر عزت کا گہن لگا ہو- لیکن کیا یہ بتا دینے سے کہ ہمارے ملک میں صورت حال کیا ہے اس کا جواز بنتا ہے کہ عزت کے غلط نظریات کو اسی طرح جاری رہنے اور قانون پر غلبہ پانے کی اجازت دے دی جائے؟

عزت کا کلچر موروثی مراعات یا جرائم پیشہ گروہوں کا تحفظ کرتا ہے جو قانون کے دائرہ سے بالاتر ہیں- پاکستان میں بھی، عزت کا کلچر --- خواہ اسے مذہب، شجاعت یا حب الوطنی کا لبادہ اڑھایا جائے---- یقینی طور پر مال و دولت کے تحفظ، مراعات اور دوسروں سے بالاتر ہونے کے ہتھیار کا کام کرتا ہے- اگر پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے اور اسکے معاشرہ کو ترقی کرنا ہے تو اس کے لئے ہمیں مروجہ عزت کے کلچر کی جگہ قانون کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا- لیکن اپنی خوشی سے مال و دولت اور مراعات سے دستبردار ہونا بھی آسان نہیں-

اپنی کتاب The Art of War میں Sun Tzu لکھتے ہیں :"جنرلز قوم کے مددگار ہیں- جب ان کی مکمل مدد حاصل ہوتی ہے تو ملک مضبوط ہوتا ہے- جب وہ تساہل سے کام لیتے ہیں تو ملک کمزور پڑجاتا ہے- مزید یہ کہ "پہلے سرکش بننا اور پھر اپنے ملک کے عوام سے خوف کھانا استعداد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے-" چلیے کچھ دیر کے لئے ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ ہماری سیویلین اشرافیہ مکمل طور پر نا اہل، بدعنوان اور ناکارہ ہے، لیکن اس ملک پر کئی دہائیوں کے خاکی کنٹرول کا جائزہ لیا جائے (براہ راست اور بالواسطہ) تو کیا ہمارے جنرلز یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس ریاست اور معاشرے کی صحیح خدمت کی ہے؟

آج پاکستان کو بیشمار سنگین مسائل کا سامنا ہے- یہ ہمارے داغدار ماضی کی پیداوار ہیں جسکے نتیجے میں ہمارے سارے ہی ادارے اس حق کو کھو بیٹھے ہیں کہ وہ اپنی خوبیوں کا پرچار کریں- حب الوطنی کی یہ تعریف کہ ایک ادارہ کے وقار کے تحفظ کے نام پر دوسروں کو قربان کردیا جائے ہمیں متحد کرنے کے بجائے تقسیم کردے گا- اگر ہم پورے پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں نہ کہ اس کے ٹکڑوں کو تو ہمیں دلیری کی جگہ جوابدہی، تکبر اور گھمنڈ سے کام لینے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی ہو گی اور مروجہ عزت کے کلچر کے بجائے قانون کی بالادستی کو فروغ دینا ہو گا-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری: بابر ستار

ترجمہ: سیدہ صالحہ

بابر ستار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Akmal shahzad May 13, 2014 12:13am
Husan ko ihtiat lazim hay , har nazar parsa nahin hoti

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024