ہندوستانی انتخابات سے کیا سبق ملتا ہے؟
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو آف انڈیا کے مطابق، ہر سولہویں منٹ پر ایک دلت کے خلاف ایک غیر دلت جرم کا ارتکاب کرتا ہے؛ ہر روز، چار سے زیادہ اچھوت عورتوں کو'غیر اچھوت مرد' ریپ کرتے ہیں؛ ہر ہفتے، 13 دلت قتل کردئے جاتے ہیں اور 6 دلت اغوا کرلئے جاتے ہیں- صرف 2012ء میں، جس سال دہلی میں گینگ ریپ اور قتل کا واقعہ ہوا تھا، 1574 دلت عورتوں کا ریپ کیا گیا تھا (جبکہ حقیقت یہ ہے دلتوں کی طرف سے صرف 10 فی صد ریپ اور دوسرے جرائم ہی رپورٹ کئے جاتے ہیں)-
سنہ 1919ء کا سال جو امریکہ میں سرخ گرمیوں کے نام سے جانا جاتا ہے، 76 کالے امریکیوں کو جس میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے لوگوں نے قتل کردیا تھا- ہندوستان میں، 2012ء میں، 612 دلت مارے گئے تھے- یہ صرف ریپ اور قتل کے واقعات تھے- ننگا کرکے سڑکوں پر پریڈ کرانا، اور زبردستی گند کھلانا اور زمینیں ہتھیا لینا، سوشل بائیکاٹ، پینے کے پانی کے حصول میں رکاوٹ کے علاوہ-
جب ہماری نظریں ہندوستان کے اس بےحد لمبی مدت کے الیکشن مہم کی جانب تھیں، ارون دھتی رائے مشہور لکھاری دلتوں کے ذی فہم قائدین اور عام دلتوں کے ساتھ مہاراشٹرا میں ان کے گڑھ یاواتمال میں مشغول تھیں-
وہ ان کے ساتھ اپنی یادداشتوں اور ان مشاہدات کا تبادلہ کررہی تھیں جو اوپر درج کئے گئے ہیں، کہ ہندوستانی نظام نے، ہندوتوا کے اثر میں آکر، عام آدمی کی وحدت کو توڑ پھوڑ کر ان کو ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کھڑا کردیا ہے کہ نوآبادیاتی دور کی مثال " تقسیم کرو اور حکومت کرو" بھی اس کے سامنے پھیکی پڑ جاتی ہے
یہی وجہ ہے کہ میرے خیال میں ہندوستانی انتخابات کے بارے میں سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر ایک مقابلے سے پہلے آپ ان نتائج کی نشان دہی کرسکتے- ان انتخابات میں دلت کیلئے کچھ بھی نہیں تھا، نہ ہی عیسائیوں، قبائلیوں یا نیچی ذات کے ہندوؤں کیلئے، اس نظام نے انہیں بری طرح تقسیم کردیا ہے- جس کے نتیجے میں، مسلمان سمجھتے ہیں کہ انہیں سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے، دلت سمجھتے ہیں کہ اس غیر مساوی نظام کا سب سے زیادہ نقصان انہیں ہوا ہے- مودی نے ان کو آپس میں لڑادیا ہے، گجرات میں، مظفرنگر میں، جہاں جہاں ہندوتوا نے اپنی جڑیں پھیلائی ہیں-
دوسرے لفظوں میں، عام طور پر انتخابات کے نتائج اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جس کیلئے ہندوستان کی جمہوریت کی تعریف کی جاتی ہے- یہی وجہ ہے کہ ہمیں ناراض ووٹروں سے واسطہ پڑتا ہے جو سیاستدانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں موقع پرست کہتے ہیں- وہ جونک کی طرح ہیں- لیکن ووٹ تو وہ بہرحال پھر بھی دیتے ہیں، ممکن ہے ایلس کی مانند ایک اطمینان کے لمحے کیلئے، کیا پتہ، بار بار یہ دیکھنے کیلئے کہ ہم چاہیں جتنا بدلنے کی کوشش کرینگے اتنا ہی ویسے کے ویسے ہی رہیں گے-
مثال کے طور پر دو بہت اہم امور کو لے لیجئے جو ایک مہینے سے زیادہ اس تلخ و ترش انتخابی مہم کے دوران گفتگو پر چھائے رہے ہیں:
فرقہ واریت اور ترقی-
برطانیہ سے زیادہ فرقہ واریت کا پرچار اور کون کرسکتا ہے؟ اور ہندوستان میں 'ترقی' کے لئے کون اتنے بڑے پیمانے پر کام کرسکتا ہے کہ مارکس بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا- نوآبادیاتی دور میں ہندوستان میں ترقی کے پیچھے ان کے اپنے تنگ نظر مقاصد تھے، جو ضروری نہیں کہ مقامی لوگوں کے حالات بہتر کرنے کیلئے ہو- انہوں نے فرقہ واریت کے جذبات کو بالکل اسی طرح استعمال کیا جیسے نریندر مودی استعمال کرتے ہیں --- اپنے معیشت کے ایجنڈے کو بڑھانے کیلئے بڑی چالاکی سے-
آخر مودی، اپنے دوستوں کی طرح جو نوآبادیاتی دور کے ورثاء تھے، اور جنہیں بڑے مالیاتی اداروں نے یہ کام سونپا ہے کہ نام نہاد ترقیاتی ماڈل پر کام کو تیز کریں اس سے پہلے کہ کوئی دوسری آزادی کی تحریک جڑ پکڑ کر اسے چیلنج کرے اور پورے ملک میں فرقہ واریت، اور کارپوریٹ کے خلاف تحریکیں شروع ہوجائیں --- اس طرح نہیں جیسے بائیں بازو کی کمیونسٹ تحریک، بلکہ اپنے غلط مگر بامقصد ہندوستانی طریقے سے-
خوف اور غصے کا ملا جلا ردعمل سیکولر عناصر کی طرف سے اس وقت آیا جب مودی اور اس کے قبیل کے لوگوں نے انتخابی مہم میں فرقہ وارانہ زہر گھولنا شروع کیا- لیکن ہندو مسلم فرقہ وارانہ اختلافات، ان کے نعروں اور تصورات سمیت آزادی سے بھی زیادہ پرانے ہیں-
1833ء کا چارٹر ایکٹ کا قطعی طور پر طے شدہ قانون ہے؛ "کوئی ہندوستانی باشندہ اپنے مذہب، پیدائش کی جگہ، نسل اور رنگ کی بنیاد پر رہنے کے حق، آفس اور نوکری سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے"
مودی کے تحت یہ بنیادی قانونی چھتری، جسے بی آر امبیڈکر نے ہندوستانی دستور کا حصہ بنایا تھا، اور اس میں قانون کی نظر میں برابری پر زور دیا گیا تھا، ہندوتوا کے دباؤ میں بے وقعت ہو جائیگی-
یہ سب سے پہلا سبق ہے جو 1947ء سے کافی پہلے ہندوفرقہ واریت اوراس کے مسلم کزن کے عروج سے ہر کسی نے سیکھا ہوگا- بجائے اس کے کہ 2002ء کی وحشیانہ خونریزی کی تلافی کریں، مودی 1938ء کے ہندوتوا کے اصولوں کو، جسے ایم ایس گولوالکر نے پیش کیا تھا، دفن کرنے پر تیار نہیں ہیں-
وہ انسانیت جو نوآبادیاتی دور میں ہندوستان کے سماجی تعلقات اور رہن سہن کا حصہ بنی تھی آج خطرے میں ہے- جیسا کہ انتخابات کے دوران ہم نے گولوالکر کےایک شاگرد سے سنا، مودی (ہندوتوا) پر تنقید کرنے والے کو پاکستان بھیج دیا جائیگا-
حقیقت شاید صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہ ہو، بہرحال، اگرچہ کہ انتخابات میں طبقاتی رنگ پر کافی زور تھا-
جیسا کہ رائے نے یاوتمال میں بتایا، کہ نہ صرف مسلمان، بلکہ عیسائی، آدی واسی، سکھ اور دلت سب خطرے میں ہیں- وہ ایک ہندو ریاست ساوارنا میں رہتے ہیں جو مستقلاً اپنی اقلیتوں اور اوارناز کے ساتھ حالت جنگ میں ہے- لیکن پھر یہ کہ ہندوستان اقلیتوں کی قوم ہے --- تو یہ اشرافیہ کی اقلیت (برہمن اور بنیا دونوں مل کر آبادی کا 6 فی صد بھی نہیں ہیں) کیونکر اپنی طاقت اور اقتدار برقرار رکھے ہوئے ہے-
"کسی بھی نوآبادیاتی طاقت کی طرح --- لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے، ناگاؤں کو کشمیر بھیج کر، کشمیریوں کو چھتیس گڑھ، تاملوں کو آسام- دوسری پچھڑی ذاتوں کو دلت کے خلاف اور دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف- آدی واسیوں کو ایک دوسرے کے خلاف"- اور اس بار الیکشن میں ان سب باتوں کے خلاف کچھ بھی نہیں تھا- اور یہی سب سے اہم سبق ہے جو اس میں ہونا چاہئے --- یقینا پہلی مرتبہ نہیں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (1) بند ہیں