کراچی ایئرپورٹ پر حملہ اور شہر میں طالبان کے خفیہ ٹھکانے
کراچی: اس کے باوجود کہ کراچی ایئرپورٹ پر کیا جانے والا آپریشن کلین اپ کے اختتام پذیر ہوچکا ہے اور اس کے ساتھ ہی دس دہشت گردوں کا بھی صفایا کیا جاچکا ہے، اس بےباکانہ حملے کی منظم کارروائی پر غور کیا جائے تو شہر میں موجود طالبان کے خفیہ ٹھکانوں کی موجودگی کے کردار کی جانب واضح اشارہ ملتا ہے۔
جب طالبان کی مرکزی قیادت حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی تو اس وقفے کے دوران ان خفیہ ٹھکانوں میں موجود افراد اس حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے موجودہ اور سابق حکام کے پس پردہ انٹرویوز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف حقیقی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ کراچی میں ان کے خفیہ ٹھکانوں کا صفایا نہیں کردیا جاتا۔
یہ خفیہ ٹھکانے ان کے اراکین کو پناہ، ہتھیار، دھماکہ خیز مواد اور ٹرانسپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ حملے کے ذمہ دار ساتھیوں کو انٹیلی جنس بھی فراہم کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹ پر ہونے والے اس حملے کی کارروائی سے پہلے مہینوں نہیں تو لازماً ہفتوں پہلے اس کے لیے منصوبہ بندی کا کام شروع کردیا گیا ہوگا۔
ٹی ٹی پی کی قیادت نے جنگ بندی کے وقفے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایئرپورٹ پر حملے کے منصوبے کو حتمی شکل دی ہوگی۔
ایک سیکیورٹی اہلکار نے کہا ’’یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ ایک دن میں دس افراد سیکیورٹی میں ایک کمزور جگہ تلاش کرلیں اور چپکے سے ایئرپورٹ میں داخل ہوں ، سیکیورٹی اہلکاروں پر گولیاں چلائیں اور مقابلے کے بعد انہیں ہلاک کردیں، پھر ایک طیارے کو دھماکے سے اُڑانے کی کوشش کریں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’یہاں تک کہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس طرح کے حملوں کے پیچھے ایک ماسٹر مائند ہونا ضروری ہے۔لیکن کیا یہ حقیقت وہ نہیں سمجھتے کہ یہاں لوگ ہیں، اصل میں لوگوں کی بڑی تعداد ہے، وہ ان کے ساتھ عام انسانوں کی طرح رہتے ہیں لیکن درحقیقت دہشت گرد گروہوں کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ ایئرپورٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تحریک طالبا پاکستان جب وجود میں آئی تھی تو اس نے اپنے ساتھیوں کو اس واحد مقصد کے ساتھ کراچی بھیج دیا تھا کہ مقامی آبادی میں گھل مل جائیں اور کسی کا شک بیدار کیے بغیر ان کے ساتھ رہیں۔
اگر ہزاروں نہیں تو ٹی ٹی پی کے سینکڑوں عسکریت پسند پہلے ہی یہاں مقیم تھے اور اپنے ہم خیال فرقہ پرست اور جہادی گروہوں کی فعال حمایت کے ساتھ شہر میں کام کررہے تھے۔
بیت اللہ محسود کی قیادت کے دوران شہر کے ان خفیہ ٹھکانوں کو کراچی میں قائم نجی سیکیورٹی اداروں کے اندر سرائیت کرکے معلومات جمع کی جاتی تھیں۔
پھر ان معلومات کو بینکوں، رقم لے جانے والی گاڑیوں اور کرنسی کا تبادلہ کرنے والے اداروں میں ڈکیتیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اندرونی کارگزاری
انٹیلی جنس حکام نے بتایا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان کے ہمدردوں کو حساس مقامات پر نچلی سطح کی کچھ ملازمتیں مل گئی ہوں، جنہیں ملازمتیں دیتے وقت ان کے پس منظر کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں بالکل بھی نہیں کی گئی ہوگی۔
ایک سابقہ سینئر اہلکار نے کہا ’’دہشت گردی کے بہت سے پچھلے واقعات میں ہم نے اندرونی طور پر لوگوں کو ملؤث پایا تھا۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ’’رینجرز کے ایک انسپکٹر نے عسکریت پسندوں کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے راستے کے بارے میں معلومات دی تھیں، جب 2002ء کے دوران انہوں نے کراچی کا وزٹ کیا تھا۔
کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے بعد فائربریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھا رہی ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی |
ایسی رپورٹیں بھی ملی تھیں کہ مہران ایئر بیس پر حملے میں اندرونی طور پر مدد دی گئی تھی۔ اس حوالے سے آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے بعض جونیئر سطح کے اہلکاروں کو عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ لہٰذا یہ سب نیا نہیں ہے، ایئرپورٹ پر حملے میں بھی لازمی طور پر اندرونی طور پر مدد دی گئی ہوگی۔‘‘
ان کے مطابق ایئرپورٹ کے ورکروں، ٹھیکے داروں، کارگوشیڈ پر کام کرنے والے مزدوروں وغیر سے اس طرح کی اندرونی مدد مل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس میں سے کسی نے عسکریت پسندوں یا ان کے ماسٹر مائنڈ کی مدد کی ہو۔
ایک اہلکار نے کہا کہ ’’ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس ایک منظم فورس ہے اور مہران ایئربیس پر ہونے والے حملے کے بعد ایئرپورٹ جیسے حساس مقامات پر تعینات کیے جانے والے ہر ایک سیکیورٹی اہلکار کا پس منظر کے بارے میں چھان بین کی جانی چاہیٔے تھی۔‘‘
انہوں نے کہا ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ فورسز میں سے کوئی ان کی مدد کرسکتا ہے، تاحال ہم اس پہلو کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
تاہم موجودہ اور سابقہ حکام نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بغیر معلومات کے اس طرز کے حملے کی نہ تو منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے اور نہ اس پر عملدرآمد ممکن ہے۔
پیش رفت آسان نہیں
دس کے دس عسکریت پسندوں کو ہلاک کیے جانے کے ساتھ ایئرپورٹ حملہ کیس کی انوسٹی گیشن میں پیش رفت حاصل کرنا مشکل ہے۔
ایک سابقہ اہلکار جو امریکا میں نائن الیون کے حملوں کے بعد انتہائی اعلٰی سطح کے دہشت گردی کے کیسز کی انوسٹی گیشن کر چکے ہیں، نے بتایا ’’ٹی ٹی پی یا القاعدہ کی مرکزی قیادت صرف ہدف کا انتخاب کرتی ہے اور حملے کے لیے آگے بڑھنے کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن کارروائی کی منصوبہ بندی، جاسوسی، کارندوں کا انتخاب، ان کے سفر، قیام وغیرہ کی نگرانی مختلف افراد یا افراد کے مختصر گروپ کے ذمے ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’فرد یا افراد کا سراغ لگانا خصوصاًاس وقت نہایت مشکل ہوجاتا ہے، جب کہ تمام حملہ آور مار دیے گئے اور ان میں کسی کو بھی زندہ نہ پکڑا گیا ہو۔‘‘
حکام نے کہا کہ اس بات کا امکان ہوسکتا ہے کہ حملہ آوروں نے ایک دوسرے کے ساتھ موبائل فون کے ذریعے بات چیت نہ کی ہو۔
لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ سب یا ان میں سے کم از کم ایک اپنے ماسٹر مائنڈ کے ساتھ بذریعہ فون رابطے میں نہ رہا ہو۔
ایک سابقہ اہلکار نے کہا ’’فون کی تلاش اہم ہے۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے فون کو تلف کردیا ہو، تب بھی موبائل فون کے ٹاورز سے فون کالز کی ٹریفک کی جانچ پڑتال سے کچھ پیش رفت حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’لیکن اس کے لیے صبر اور بہت زیادہ وسائل اور افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ عمل پہلے ہی شروع ہوچکا ہے، اور جلد ہی ہم گھاس کے اس ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرلیں گے۔‘‘
دو سابقہ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تفتیش کا کام پولیس کا ہے اے ایس ایف کا نہیں۔ جب تک کہ ان کے پاس سی سی ٹی وی کی فوٹیج نہیں ہوگی، اے ایس ایف دہشت گردوں کی گاڑی کو تلاش نہیں کرسکے گی، جس کے ذریعے وہ فوکر گیٹ تک پہنچے تھے۔
اے ایس ایف شواہد جمع کرنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہے۔ دہشت گردوں سے برآمد ہونے والے ہتھیاروں کو وصول کرنے کے انداز سے یہ ظاہر ہوگیا تھا۔
اس بات کا امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ حملہ آوروں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے انگلیوں کے نشانات بھی ہتھیاروں پر بن سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان ہتھیاروں کو فارنسک جانچ کے لیے بھیجے جانے سے پہلے پلاسٹک شیٹس میں لپیٹ دینا چاہیٔے تھا۔ لیکن ناقص طریقہ کار کی وجہ سے یہ موقع بھی گنوادیا گیا۔
خطرہ اب بھی موجود ہے
ان حکام نے خبردار کیا کہ جب تک ماسٹر مائنڈ اور خفیہ ٹھکانے موجود ہیں، لوگوں کو مزید دہشت گرد حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیٔے۔ اس لیے کہ عسکریت پسندوں کو جس طرح کے نظریاتی پراپیگنڈے کا شکار بنایا گیا ہے، اس کے زیرِ اثر وہ ہمہ وقت مرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
مذکورہ حکام نے کہا کہ دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے اس وقت مزید فعال ہوجائیں گے، جب کہ فوج وزیرستان میں ان کے اڈوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کردے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان سے مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ایک مؤثر اور مربوط انٹیلی جنس اکھٹا کرنے کا طریقہ کار اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال تھا۔
ایک اہلکار نے کہا ’’ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے ہم یہ جنگ نہیں جیت رہے ہیں۔‘‘
تبصرے (3) بند ہیں