فوجی آپریشن روایتی نہیں ہو گا: دفاعی مبصر
اسد منیر ایک دفاعی تجزیہ نگار اور ایک ریٹائیرڈ بریگیڈیئر ہیں۔ انہوں نے فاٹا اور خبیر پختونخوا میں بطور سینئر انٹیلی جنس عہدے دار کے خدمات انجام دی ہیں۔
شمالی وزیرستان میں ایک فوجی آپریشن کے باضابطہ اعلان کے بعد ہم نے اسد منیر سے سوال کیا کہ یہ کارروائی کس طرح کی جائے گی اور اس کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں۔
سوال: اس آپریشن میں محض زیادہ سے زیادہ فضائی حملے ہوں گے یا زمینی سطح سے بھی کارروائی کی جائے گی؟
جواب: یہ آپریشن زمینی فورسز کی قیادت میں کیا جائے گا، جو پہلے ہی اس علاقے میں تعینات ہے۔ اس سال کی ابتداء سے ہی شمالی وزیرستان میں فوج کو منتقل کردیا گیا تھا۔ آپ کو یقیناً یاد ہوگا کہ اس فوجی آپریشن کے لیے 2011ء سے فوج کی جانب سے دباؤ ڈالا جارہا تھا، لیکن اسے اپنے قدم صرف اس وجہ سے پیچھے ہٹانے پڑے کہ سیاسی قوتوں نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان جیسے لوگ تو فوجی کارروائی کی مخالفت باہر نکل آئے تھے۔
اس طرح یہ آپریشن روایتی ہونے کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ جنوبی وزیرستان کے برعکس یہاں یا معینہ علاقوں میں تحریک طالبان کی مقررہ موجودگی نہیں ہے۔ جنوبی وزیرستان میں گزشتہ آپریشن کے دوران بیت اللہ محسود کی فورسز خندقوں میں چھپی ہوئی تھی اور مقررہ پوزیشنوں پر تھی۔ یہ یہاں جنوبی وزیرستان جیسا کچھ نہیں ہے۔ یہ عسکریت پسندوں کا آخری مضبوط گڑھ ہے، یہ واحد علاقہ ہے جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ یہاں ان کی حکمرانی ہے۔
سوال: اس آپریشن میں کس کو نشانہ بنایا جائے گا، کیا مقامی عسکریت پسندوں یا غیرملکی جنگجوؤں پر توجہ مرکوز رہے گی؟
جواب: ٹی ٹی پی اور غیرملکی عسکریت پسندوں دونوں ہی کو اس آپریشن میں نشانہ بنایا جائے گا، چاہے وہ عرب ہوں یا وسطی ایشیا سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایسے علاقے جہاں جنگجو پناہ حاصل کرسکتے ہیں، ان میں اورکزئی ایجنسی کا علاقہ مامون زئی بھی ہے، جس پر اب تک فوج کا کنٹرول نہیں ہوسکا ہے۔ وادیٔ تیراہ ان کے لیے ایک اور ممکنہ پناہ گاہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کی موجودگی کے بارے میں اطلاعات مبالغہ آمیز ہے۔ افغانستان کے کچھ حصوں میں ان کا اثرورسوخ موجود ہے، اور امکان ہے کہ وہ سرحد پار کرکے وہاں منتقل ہوسکتے ہیں۔ ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ غیرملکی جنگجو بڑی تعداد میں یہ علاقہ چھوڑ کر جارہے ہیں۔
سوال: کیا اس آپریشن کے ذریعے عسکریت پسندوں پر فیصلہ کن ضرب لگائی جارہی ہے، یا پھر یہ آپریشن بھی ماضی میں کیے گئے آپریشن کی طرح ہوجائے گا؟
جواب: اس آپریشن کو منظم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ ہمیں بین الاقوامی سطح پر بُری شہرت حاصل ہورہی ہے اور اس خطے میں بڑی دہشت گردی کی کارروائی کا اس علاقے میں سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی سطح پر پروان چڑھنے والے دہشت گرد جیسے لشکرِ جھنگوی اور دیگر بھی شمالی وزیرستان میں تربیت حاصل کررہے ہیں، لہٰذا یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ ایسے عناصر کی بیخ کنی کی جائے۔ انہیں منتشر کرنے کے بجائے یہ آپریشن اس علاقے سے دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا، اور کسی بھی علاقے میں جہاں وہ غلبہ حاصل کرسکتے ہیں، فوج کے غلبے کو تسلیم نہیں کرے گی۔
تبصرے (1) بند ہیں