• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

بے نتیجہ جنگیں

شائع June 18, 2014
ریاست تسلیم نہیں کرنا چاہتی کہ نجی مفادات کیلئے معدنیات اور وافر پانی والے علاقے کا استعمال استحصال اور سنگدلی ہے
ریاست تسلیم نہیں کرنا چاہتی کہ نجی مفادات کیلئے معدنیات اور وافر پانی والے علاقے کا استعمال استحصال اور سنگدلی ہے

دہلی کی چلچلاتی گرمیوں میں، گلہریاں اپنے جسم کو ٹھنڈک پہنچانے کیلئے، پھولوں کے گملوں میں پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھیں جن میں میں نے صبح ہی پانی ڈالا تھا-

وہاں کوئی ٹھنڈک پہنچانے والے گملے نہیں تھے جہاں ایک میٹنگ میں میں پورے ہندوستان سے آئے ہوئے عوامی سطح پر کام کرنے والے کارکنوں سے ملا-

ان میں ماحولیاتی ماہرین سے لیکر بڑے ڈیموں کی تعمیر کے مخالفین اور اینٹی نیوکلیر مہم کے علم بردار موجود تھے جو فوکوشیما جیسی تباہی سے خوفزدہ ہیں جو ہندوستان میں بھی ممکن ہے، کیونکہ نیوکلیر پلانٹ تعمیر کرنے والے غیرملکی شریک کار کسی خرابی کی صورت میں ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے ہیں- انہیں کس بات کا ڈر ہے؟

اس میٹنگ میں ہندوستان کی حالیہ معاشی پالیسیوں کے نقاد بھی موجود تھے جس نے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو اور بڑھا دیا ہے اور اب جب کہ ان تمام لوگوں کو ان کی حمایت کا صلہ دینے کا وقت آیا ہے جنہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کی انتخابات میں حمایت کی تھی، وہ اب ان لاکھوں افراد کو ان کی آبائی جنگلاتی زمینوں سے جو معدنیات سے بھری ہوئی ہیں بے دخل کرنا چاہ رہے ہیں- وہ قبائلی جو عموماً چھتیس گڑھ، جھاڑ کھنڈ اور شمال مشرقی علاقوں میں آباد ہیں-

اس میٹنگ کے شرکاء میں ریاست کی جانب سے حملے کا ایک عجیب سا خوف تھا جو منموہن سنگھ کو عوامی دباؤ کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا تھا- ایک فوجی مہم تو بہرحال متوقع تھی- جو گفتگو کے شرکاء کے خیال میں قبائل کی بے دخلی کی مزاحمت کی صورت میں ہوگی، جو ریاست کے مطابق --- ماؤاِسٹ قیادت میں "سب سے بڑا داخلی سیکیورٹی چیلینج" ہے-

ریاست اس بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی ہے کہ معدنیات اور وافر پانی والے علاقے کا نجی مفادات کیلئے استعمال ایک استحصالی اور سنگدلانہ اقدام ہے جب کہ ملک معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے- بلکہ وہ صرف ماؤاِسٹ کو ایک ناگوار شے کے طور پر پیش کرتی ہے-

ہم نے یہ سب پہلے بھی دیکھا ہوا ہے- بنگال کی لوٹ مار پر تاریخ دان عرفان حبیب نے کلائیو کے بارے میں لکھا تھا؛

"ہر تاجر کا خواب ہوتا ہے کچھ بیچنا، بغیر کچھ خریدے ہوئے"-

ماؤاسٹ کا اثر خون خرابے کے بغیر اس علاقے سے ختم کرنا ہے تو پہلے اس چیز کو ختم کرنا ہوگا جسے مقامی لوگ کئی دہایئوں سے "بنیا-ٹھیکیدار-سیاستدان کا گٹھ جوڑ" کہتے آئے ہیں- اس گٹھ جوڑ نے قبائلی عورتوں، زمین، پانی، لکڑی، اور معدنیات کا بے دردی سے استحصال کیا ہے- ریاست یہ سب سننا نہیں چاہتی-

جن عورتوں اور مردوں سے میں ملا ہوں وہ کوئی ماؤاسٹ نہیں تھے، البتہ، اس کے برخلاف، ماؤاسٹ نے ماحولیات کے کچھ سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنایا جو وہاں جمع ہوئے تھے-

موٹلی گروپ، وہاں یہ معلوم کرنے کے لئے آیا تھا کہ ان کے ممبروں کو ملک کی پہلی خالص داہنے بازو کی پارٹی کی حکومت سے کیا چیلینجز ہیں-

اس میٹنگ میں بے چین، تجربہ کار، محب وطن اور بے حد فکرمند اور محنتی سرگرم اور جدوجہد کیلئے تیا رکارکن شریک ہوئے تھے- اگرچہ کہ اس گفتگو میں جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ وہی جانے پہچانے چھوٹے موٹے اختلافات تھے کہ چیزوں کو واپس پٹڑی پر لانے کیلئے کیا کرنا ضروری ہے-

اس مفروضے کے بارے میں مشترکہ سوچ کافی پرکشش تھی کہ انسان دوستی کے اصولوں کو دوبارہ تسلیم کروانے کے عہد کو دوسرا موقع ضرور ملیگا-

کیا کچھ لوگ جنہوں نے کانگریس پارٹی کو خِیرباد کہہ دیا کہ اب وہ پارٹی ان کے بھروسے کے لائق نہیں تھی ان کا اقدام درست تھا؟

کیا یہ سوال ایک اختلاف رائے تھا یا کانگریس نے اپنا سیکولرنقطہ نظر چھوڑ دیا تھا جیسا کہ کچھ لوگوں کی سوچ تھی تاکہ ہندو دھرم کے احیاء کی پرچارک بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم کا رول ادا کرے؟

بی جے پی کو راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سیاسی دھڑے کے طور پر 1952ء میں اس کے انعقاد کے بعد پہلی مرتبہ مطلق اکثریت حاصل ہوئی تھی-

کیا بائیں بازو کی ہاری ہوئی پارٹیاں عام آدمی پارٹی کے ساتھ مل جائینگی؟

عام آدمی پارٹی کے بارے میں لوگوں کے متنازعہ خیالات تھے- کیا یہ پارٹی سیکولرازم اور عوامی معیشت کی حامی تھی اگرچہ کہ بائیں بازو کے خلا کو پرکرنے کیلئے تھوڑی ناتجربہ کار تھی؟

کیا کامیاب امیدوار کانگریس میں واپس چلے جائیں، ہاتھ میں ٹوپی لئے ہوئے، اگرچہ کہ انہیں اکثر اس دھوکے کا بھی احساس ہوتا ہوگا جو ان کے ساتھ ہوا، لیکن ہندوستان کی سب سے پرانی سیاسی جماعت اور عوام میں بہرحال اس کا اثر ہے؟

کچھ کامریڈوں کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی کانگریس کو کمزور کرنے کیلئے ہندوتوا کی ایک چال تھی- دوسروں کی نظر میں انتخابی سیاست میں اس کا ملوث ہونا ایک نقصان دہ عمل تھا- وہ چاہتے تھے کہ عام آدمی پارٹی ان کے ساتھ مل کر عوامی سطح پر مہموں کو منظم کرے اور ان کی قیادت کرے-

کچھ لوگوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVMs) کے ذریعے ووٹنگ سسٹم پر اپنے شبہات ظاہر کئے جو ہندوستان میں انتخابات کے لئے اختیار کیا گیا تھا- بی جے پی نے سب سے پہلے اس ووٹنگ سسٹم کے قابل اعتبار ہونے پر شک کا اظہار کیا-

بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کو ایلیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کے خلاف شدید اعتراضات تھے، جو یو ٹیوب پر موجود ہیں- 2009ء کے انتخابات کے زمانے میں انہوں نے ایک مقدمہ بھی دائر کیا تھا، جس میں کانگریس نے پرزور فتح حاصل کرکے سب پیشین گوئی کرنے والوں کو حیرت زدہ کردیا تھا-

اب کچھ بائیں بازو کے کارکن وہی اعتراضات جو مسٹر سوامی سے مختلف نہیں ہیں اپنی شکست کی وجہ کے طور پر پیش کررہے ہیں جو یک شخصی مہم جو وزیراعظم نریندرا مودی اپنے بائیں بازو کے تمام حریفوں کے خلاف چلارہے تھے-

بڑی بڑی جمہوریتیں عوامی رائے جاننے کیلئے ای وی ایم (EVM) پر بھروسہ نہیں کرتی ہیں- مسٹر سوامی یہ بات دعوے سے کہتے تھے اور یہ بات ان سے کسی کو ضرور پوچھنا چاہئے کہ کیا اب بھی ان کا یہی خیال ہے-

ہندوتوا کی جیت کے بارے میں، جو نازی جرمنی اور فاشسٹ اٹلی سے اپنی روحانی رہبری حاصل کرتی ہے، یہ کہنا، یقیناً، زیادتی ہوگی کہ اس کی وجہ ووٹنگ کا وہ غلطیوں سے پر نظام ہے جو ہندوستانی انتخابات میں استعمال کیا گیا- میٹنگ کے دوران میرے ذہن پر صبح کے اخبارات کی خبریں آرہی تھیں جس میں انٹیلیجنس بیورو نے وزیراعظم کے آفس کو مشورہ دیا تھا کہ ان سرگرم کارکنوں کو قابو میں رکھ کر الٹی سیدھی چیزیں سننے سے روکیں- وہ دوبارہ اپنی صف بندی کرینگے یا اپنے زخموں کو سیمینار ہال میں سینچیں گے اس کا فیصلہ اور دوسری باتوں کے علاوہ حکومت کے ارادوں پر منحصر ہوگا-

آئی بی کی رپورٹ کے مطابق ذات پات کی بنا پر تفریق، انسانی حقوق اور بڑے بڑے بند کے مسائل ہندوستان کو بدنام کرنے کیلئے پہلے عالمی ادارے اٹھایا کرتے تھے، جبکہ حالیہ دنوں میں ان کی نوعیت بدل کر"آبادی کم کرنے کی مہم" کی ہمت افزائی، قدرتی پیداوار پر توجہ، جینیاتی تبدیلی والی غذا اور دوسری چیزیں، موسمی تبدیلی اور اینٹی نیوکلیر مسائل وغیرہ بن گئی ہے-

ان گلہریوں کو، میں نے دیکھا کہ کَووّں کے ایک گروہ نے بھگا دیا ہے- اس کے بعد طوطے آئے، پھر مینا، ایک بےچین، شوخ رنگوں والا پرندہ اور کچھ دوسری چڑیاں جو اب ناپید ہو رہی ہیں برتن سے پانی پینے کیلئے آئیں جو ان ہی کیلئے رکھا تھا-

ہر ایک کو مونسون کا انتظار ہے، چاہے وہ جیتنے والے ہوں یا ہارنے والے-

انگلش میں پڑہیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 9 اپریل 2025
کارٹون : 8 اپریل 2025